Sunday, June 16, 2019

کاش میں مولوی ہوتا!

0 تبصرے
15 جون 2019

بڑے افسوس کی بات ہے کہ مدارسِ اسلامیہ کے بعض فارغین ایک جذباتی مضمون "کاش میں مولوی نہ ہوتا" کو بہت جذبے کے ساتھ اس خیالِ خام میں نشر کیے جارہے ہیں کہ صورت حال گویا واقعی ایسی ہی ہے. 
لیکن لگتا ہے اس فکر کے پیچھے چند وہ عناصر کارفرما ہیں جو خود مدارس میں پڑھنا نہیں چاہتے تھے. یا پھر دوران تعلیم فضولیات کے علاوہ کسی اور قابل ذکر مشغلے سے دور تھے.
اس مضمون میں جو رونا رویا گیا ہے، اس سے دور حاضر میں متعلم طلبا کا حوصلہ پست ہو سکتا ہے.
سب سے پہلے یہ فکر ہی غلط ہے کہ پڑھ لکھ کر فارغ ہونے کے بعد اس تعلیم کو ہی ذریعۂ روزگار بنانا ضروری ہے. بہت سی مثالیں ملیں گی کہ فرد ایک خاص شعبے کا ماہر ہے لیکن اس نے معیشت کے لیے اس شعبے کو اختیار ہی نہیں کیا. معیشت کے ذریعے کا اختیار ماحول اور حالات کے تقاضے کے مطابق کیا جاتا ہے. اور جب آپ تعلیم شروع کر رہے ہوتے ہیں، یا جب ثانویہ کے بعد کسی خاص شعبے کو آپ چنتے ہیں اس وقت آپ کے فرشتوں کو بھی یہ خبر نہیں ہوتی ہے کہ آج سے پانچ سال بعد جب آپ بیچلرس کی ڈگری لے کر میدان میں اتریں گے اس وقت اس موضوع کا ڈیمانڈ کیا ہوگا؟ یا معیشت کے لیے یہ ہنر کتنا کارآمد ہوگا؟
اس لیے اس تعلیم کو یا شعبے کو کوسنا ایک طرح سے حماقت اور فضول ہے.
مدارس کے فارغین کا موازنہ کالج سے ڈگری لیے ہوئے افراد سے کریں تو زیادہ تر مدارس کے فارغین برسرِ روزگار ملیں گے. جب کہ مدارس کی فراغت عموماً انٹرمیڈیٹ کے مساوی ہوتی ہے.
احساس کمتری ایک مہلک بیماری ہے. اسے ختم کرکے سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے. اور اس احساسِ کمتری کی وجہ بعض مدارس کے داخلی حالات ہیں. جہاں اساتذہ سے بدسلوکی کی وجہ سے مدارس کے فارغین اس میدان کو ہی کراہت کی نگاہ سے دیکھنے لگتے ہیں. 
میرے اپنے محدود سروے میں بھی میں نے یہ پایا ہے کہ مدارس کے شعبۂ حفظ کا فارغ ایک اچھا حافظ و قاری بھی آج 8 سے 10 ہزار ماہانہ تنخواہ دیہی علاقوں میں پارہا ہے. جب کہ پوسٹ گریجویٹ کے کئی فارغین کو 10 ہزار کے مشاہرے پر شہروں کے مارکیٹ میں شاپنگ سینٹر اور شو روم وغیرہ میں کام کرتے ہوئے پایا جاتا ہے.
تعلیم یافتہ بے روزگاروں کی بڑی تعداد انٹرمیڈیٹ، گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ کی ہے. جب کہ مدارس کے فارغین بہت کم ہی بے روزگار پائے گئے.
ایک ریکروٹمینٹ ایجینسی کے پاس علماء اور حفاظ کے لیے ادارے والے رابطہ کرتے ہیں تو وہاں بھی علماء اور حفاظ کی خاطر خواہ تعداد نہیں ہے.
تنخواہ ایک الگ مسئلہ ہے. اور واقعی قابل غور مسئلہ ہے. لیکن میں یہ تسلیم کرنے سے قاصر ہوں کہ مدارس کے فارغین کا کوئی مستقبل نہیں ہے. اور میں بہت خوش ہوں کہ الحمد للہ میں مولوی ہوں. کہ کئی افراد کو یہ حسرت کرتے دیکھا ہوں کہ "کاش میں بھی مولوی ہوتا!

Friday, March 1, 2019

جملے باز

0 تبصرے
17 ستمبر 2017

ہند کی سیاست میں لفظ "جملہ" ایک اصطلاح بن چکا ہے۔ اور یہ اصطلاح اس وقت "ایجاد" ہوئی جب حالیہ حکومت نے اپنے کئے ہوئے کئی وعدوں کو محض "جملہ" قرار دیا۔ اسی وقت سے عموما "جملہ باز" سے مراد حالیہ حکومت کے نمائندوں کو لیا جاتا ہے۔
ایک کہاوت ہے کہ جھوٹ کو اتنی بار بولو کہ وہ سچ ہوجائے۔ اور یہ کہاوت زندہ مثال بن کر اس وقت سامنے آئی جب ہندوستان میں وزیر اعظم کو مشتہر کیا جارہا تھا تو اسی طرح قسم ہا قسم کے جھوٹ کو ان کی طرف منسوب کرکے انہیں مشہور کرنے کی مذموم حرکت ہند کے چند نمایاں لیکن زر خرید ذرائع ابلاغ نے کیا۔ اور ان جھوٹے اور معدوم اوصاف کی اس قدر تشہیر ہوئی کہ آج ہر کوئی ان باتوں کو سچ ماننے لگا ہے! 
مثلا: ذرائع ابلاغ پر ایمان کی حد تک یقین رکھنے والی عوامِ ہند نے اس بات کو تسلیم کرلیا ہے کہ "مودی چائے بیچنے والا ایک بہت ہی عام آدمی ہے۔" جب کہ تحقیقات بتاتے ہیں کہ یہ بھی ایک "جملہ" کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اسی طرح نریندر مودی کو "کنوارا" کہا گیا۔ اور اتنی بار کہا گیا ہے اب "یشودا بین مودی" کے ہزاروں جتن کے باوجود کوئی محترمہ کو مودی کی بیوی ماننے کو تیار ہی نہیں! 
ہم مسلمان بھی کچھ کم نہیں۔ ہم بھی بہت سے جملے بازوں کی جملے بازی کو ایمان کی حد تک سچ مانتے آئے ہیں۔ اور ایسے افراد کو قوم و ملت کی ناخدائی سونپ دی جو بہ ظاہر تو امت کے خیر خواہ ہیں لیکن پس پردہ ان میں قوم و ملت کی بربادی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔
ایک عرصے سے ہمارے یہاں بعض طفلان مکتب نے جمہوریہ ایران کو "امت مسلمہ کا سب سے بڑا خیر خواہ" تسلیم کیا ہوا ہے۔ کیا مجال کہ ایران کے خلاف ان کے سامنے کوئی بات کہہ دیں۔ فورا آپ پر "ریالی"، "سعودی ایجینٹ"، "امریکہ یا یہود کا غلام" جیسے بے شمار القاب و فتاوے چسپاں ہوجائیں گے۔ اس کی وجہ بھی ایران کی "جملہ بازی" ہے۔ ایک عرصے تک ایران امریکہ اور پورپ کو بہ ظاہر للکارتا رہا۔ اور ہیرو اور اسلام و مسلمین کا نمائندہ بننے کا ڈھونگ کرتا رہا۔ لیکن پس پردہ اس کی اسلام دشمنی کو کسی نے نہیں دیکھا۔ امریکہ اور یورپ کے ساتھ ان کی خفیہ ملاقات گوکہ بعض ذرائع ابلاغ نے ظاہر کرنے کی کوشش کی لیکن انہیں کون تسلیم کرتا ہے۔ اسرائیل کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات منقطع ہونے کی خبر کو وہ غلط مانتے ہیں لیکن ایران کے اسرائیلی تعلقات پر وہ کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتے ہیں۔
ایک زمانے میں یرغمالی "مرسی" بھی امیر المؤمنین ہوا کرتے تھے۔ ان پر "سیسی" نے جو کیا میں اس کی حمایت تو ہرگز نہیں کرتا۔ لیکن اب بھی بعضوں کے لئے وہ خلیفة المسلمین ہیں۔ اور اب ایک نئے خیر خواہ کی آمد آمد ہے۔ جو مسلمانوں کے تمام معاملوں میں ایران کی طرز پر اپنی موجودگی اور نمائندگی درج کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا ہے۔ اللہ کرے کہ وہ شخص ویسا ہی ہو جس کی امید لوگوں کو ہے۔ لیکن بعض تحقیقات اور ماضی کے احوال کے مطالعے سے یہ بھی ایک بھیانک منظر نامے کی طرف پیش قدمی لگتی ہے۔ ترکی کے بارے میں پہلے جان لیں کہ وہاں کے لوگ کس قسم کے ہیں، کیسے مسلم اور کیسے اسلام دوست ہیں۔ پھر شوق سے ترکی کو دار الخلافہ قرار دیں! 

در اصل جملوں پر یقین کرنے والے ہر دو "بھکت" کی حالت یکساں ہے۔ وہ بھی اپنے "گرو" کی باتوں کو حرف آخر مانتے ہیں، اور انہیں اپنے "بھگوان" کا "اوتار" تک بنا دیتے ہیں۔ اور یہاں ہم بھی اپنے مرشد کو امیر المؤمنین کے رتبے تک پہونچا دیتے ہیں۔

دونوں طرف تحقیق کا فقدان ہے۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے ہم مسلمان ہونے کے باوجود "بھکتی" کے میدان میں مودی کے "اندھ بھکتوں" سے کچھ بھی کم نہیں ہیں!

Sunday, January 20, 2019

#10YearsChallenge

0 تبصرے

       سال 2019کی شروعات ہوتے ہی سوشل میڈیا میں گزشتہ دس سالوں کی ایک جھلکی دکھانے کے لیے ایک ہیش ٹیگ چلا۔ تو مجھے بھی دس سال قبل کی ایک تصویر ملی، اور اس کو دیکھ کر ماضی میں جھانکنے کی کوشش کرنے لگا۔ ایک ایک  کر کے واقعات نظروں کے سامنے آتے گئے، اور میں انہی میں کھو سا گیا۔
       ان دس سالوں میں زندگی کے بہت سے نشیب و فراز سے رو بہ رو ہوا۔ بہت سے تلخ و شیریں تجربات ہوئے۔ کچھ نئے رشتے وجود میں آئے، کچھ بچھڑ گئے۔ وجوہات میں کچھ میری نادانیاں اور جگر پاروں کی کچھ غلط فہمیاں بھی ہیں۔
میرے لئے اس طویل عرصے میں کئی قیمتی اسباق ہوئے۔ جن میں سے چند اسباق پیش ہیں:
٭           مالی اعتبار سے آپ کے حالات جب تک مضبوط ہوں گے، تب تک آپ کے گرد چاہنے والوں کا ہجوم ہو گا۔ اور جب معاشی اعتبار سے کمزور ہو جائیں گے، تو آپ کی معمولی ترین غلطی ایک جرم عظیم ہو جایا کرے گی۔
٭           خواہشات کو محدود کر لیں تو پھر تنخواہ کے معیار پر آپ کا کوئی کام منحصر نہیں ہو گا۔
٭          جتنا آپ کو ملنا ہے اتنا مل کر رہتا ہے۔ اسے آپ سے کوئی بھی چھین نہیں سکتا ہے۔ اور جو آپ کو نہیں ملنا ہے، اس  کے لیے آپ لاکھ کوشش کریں وہ کسی صورت نہیں مل سکتا ہے۔
٭         جب آپ آزمائشوں میں گھرتے ہیں تو بسا اوقات وہ تمام افراد آپ کے خلاف ہوتے ہیں آپ کے جگر پارے ہیں۔
٭          آپ کے خلاف اگر ایک الزام لگا،  اور وہ محض الزام تھا، پھر بھی آپ گرد سارا زمانہ سازشوں اور افواہوں کا بازار لگا دیتا ہے۔ پھر آپ کے ذریعے کیا ہوا ہر مثبت کام بھی اسی الزام کی عینک سے دیکھا جاتا ہے۔ ایسے حالات میں صرف صبر ہی ایک کار آمد ساتھی ہے، جس کے ذریعے آپ اپنے غموں کو ہلکا کر سکتے ہیں۔
٭          اگر آپ تعلیم حاصل کرتے وقت بے غرض ہو کر تعلیم سے صرف علم کے لئے محبت کا تعلق قائم کرتے ہیں تو وہ علم  ہر مشکل وقت میں آپ کا مدد گار ثابت ہو تا ہے۔
٭          شادی کے بعد زندگی کے حالات اور لوگوں سے تعلقات یکسر بدلنے لگتے ہیں۔ کیوں کہ  ایک نئے رشتے سے منسلک ہونے کی وجہ سے جہاں مصروفیت بڑھتی ہے، وہیں آپ کی محبت اور کمائی بٹنے لگتی ہے۔ اس نئی تبدیلی اور اس کی ضرورت کو جو سوجھ بوجھ کے ساتھ سمجھتے ہیں وہ واقعی اس تبدیلی سے شاکی نہیں ہوتے ہیں۔ لیکن جو بھی اسے سمجھ نہیں پاتے وہ اس  تبدیلی کو قبول نہیں کر پاتے ہیں۔ اور پھر طعن و تشنیع، اور بدگمانیوں کا وہ لا متناہی سلسلہ شروع ہوتا ہے کہ جہاں صرف اور صرف نفرت اور غیض و غضب کو بڑھاوا ملتا ہے۔
٭          زندگی جینے کے کچھ اصولوں کو حالات کے پیش نظر طوعاً و کرهاً بدلنا ہی پڑتا ہے۔
٭          کسی پریشانی یا مصیبت کے وقت اس سے ابھرنے کی حتی الامکان کوشش تو  ہونی چاہیے۔  لیکن ایسے حالات میں تناؤ اور ٹینشن سے کچھ حاصل نہیں ہوتا ہے، بلکہ مزید پریشانیاں بڑھ جاتی ہیں۔
٭          غلط فہمی کبھی کبھی اتنی مہلک ہوتی ہے کہ طویل عرصے کی رفاقت کو ختم کر دیتی ہے۔
#10YearsChallenge