Friday, December 28, 2018

آپ ہی تو منصف ہیں، آپ کی عدالت ہے

0 تبصرے
غزل

آپ سے بچھڑنا اک کرب ہے اذیت ہے
ہاتھ تو ملا لیجے کون سی قباحت ہے

نفرتوں کی دیواریں آؤ  منہدم کر لیں
حکم دے نہیں سکتا، مان لو نصیحت ہے

جرم میرا نکلے گا، یہ یقین ہے مجھ کو
آپ ہی تو منصف ہیں آپ کی عدالت ہے

تحفۃً مجھے اس نے زخم ایسے بھیجے ہیں
داغ  ہے نہ گھاؤ ہے واہ کیا نفاست ہے

زخم بھی زمانے میں کون مفت دیتا ہے
نیکیوں کے بدلے میں یہ ستم غنیمت ہے

آپ کہہ رہے ہیں  کیوں اب تلک میں زندہ ہوں
میری زندگی تو بس موت سے عبارت ہے

آنسوؤں کو خوں کرکے پی رہا ہوں مدت سے
زندگی کی ہر ساعت مانئے قیامت ہے

آپ کی خوشی پر اب میرا حق نہیں کچھ بھی
تب عجب محبت تھی اب عجب عداوت ہے

شعر کی زباں میں اب زخم لکھ رہا ہوں  میں
نہ کوئی کہانی ہے نہ کوئی حکایت ہے

خون میں ترے اک دن زہر اپنا بھر دیں گے
آستیں میں سانپوں کو پالنا حماقت ہے

ہے بری یہ لت میری سچ کو سچ ہی کہتا ہوں
ہاں ظفر بھی باغی ہے سچ اگر بغاوت ہے

0 تبصرے: