ہر مسلک کے شدت پسند عناصر ہی اس مسلک کے دشمن واقع ہوئے ہیں! اور فی الحال ایسا ہی ہورہا ہے۔ یہ کون سی تُک ہے کہ کتا کاٹ لے تو کتے کو ہم بھی کاٹنے دوڑیں؟!
مولوی بدرالدین اجمل قاسمی نے جو کیا ہے وہ شرم ناک اور قابل مواخذہ ضرور ہے۔ لیکن اس کے جواب میں چند ایک کو مستثنی کردیں تو دیگروں نے جو طوفان کھڑا کیا ہے اسے کسی حال میں بھی اعتدال کا راستہ نہیں کہا جاسکتا ہے۔ مانو کہ بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے سے کوئی بھی پیچھے رہنا نہیں چاہتا ہے۔
الحمد للہ چند ایک ذمہ دارانہ اور معتدل تحریریں نظر آئیں، ورنہ وہی طوفان بدتمیزی!
کہیں دیکھا کہ کوئی ابن انسان موصوف کو شیطان ابن شیطان لکھ رہا ہے، اور بعض ابوجہل سے کم پر کسی صورت راضی نہیں ہیں۔ اور انہیں میں سے کچھ تو اب انہیں عالم کہنے کو بھی قریب از حرام قرار دیے جارہے ہیں۔
مجھے اندیشہ ہے کہ جب تک میری یہ تحریر ایسے باشعور نگہبانان ملت کے نظر نواز ہوگی تو وہ میرا نسب نامہ بھی آر ایس ایس اور ابن الوقتی سے جوڑ بیٹھیں گے۔ اور مجھے اس کی پرواہ نہیں ہے۔
بہ ہر حال میری اس تحریر سے کوئی اس غلط فہمی کو نہ پال بیٹھے کہ میں مولانا بدر الدین اجمل صاحب کے اس قبیح فعل کا دفاع کر رہا ہوں۔ نہ، ہرگز نہیں! انہوں نے غلط کیا ہے۔ انہیں سربزم اپنی بات پر ندامت کا ظہار کرنا چاہئے! اور سلفی مکتب فکر سے معافی مانگنی چاہئے۔
خیر وہ کیا کریں گے یہ ان کا مسئلہ ہے! لیکن ہمیں جذبات کی رو میں بہ کر اعتدال کو چھوڑنا نہیں چاہئے۔ جرم کا جواب جرم سے دینا عقل مندی ہرگز نہیں ہے
#سبقتِ_لسانی