منیہاری، کٹیہار۔
عنوان دیکھ کر چونک گئے!؟ جی ہاں آپ نے ٹھیک ہی پڑھا ہے۔ رنگ بدلتا انسان!
ہائی اسکول میں سائنس اور جغرافیہ میں جان داروں کی ایک صلاحیت کے بارے میں پڑھا تھا۔ جسے "توافق" کہتے ہیں۔ یہ ایک ایسی صلاحیت ہے جس کی مدد سے ایک جان دار خود کو محفوظ رکھنے کے لئے اپنے ماحول کے تقاضے کے مطابق خود کو ڈھال سکتا ہے۔ اور اپنے اندر ضروری تبدیلی لا سکتا ہے۔ اس وقت کتابوں میں کئی مثالیں پڑھنےکو ملی تھیں۔ لیکن عملی طور پر ان میں سے بس رنگ بدلتے گرگٹ کا ہی مشاہدہ کر سکا تھا۔ کہ خود کو محفوظ رکھنے کے لئے گرگٹ اپنے رنگ کو اپنے ماحول کے مطابق ڈھال لیتا ہے۔ کہاوتوں سے سبق لیتے ہوئے ہم یہی جانتے ہیں کہ کوا جب بھی چالاکی دکھاتے ہوئے اپنا رنگ بدل کر ہنس بننا چاہے گا وہ ذلیل و رسوا ہوگا۔
تف ہے ہم انسانوں پر! کہ ہم کووں کو ہنس بننے پر تو کوستے ہیں لیکن بہ وقت ضرورت خود رنگ بدلنے میں ذرا بھی شرم نہیں کرتے! ایسے انسانوں کو جعل ساز اور کرتب باز بھی کہا جاتا ہے۔ اور تاریخ میں بھی انہیں ایسے بے شمار حسین القاب نوازے جاتے ہیں۔
دور حاضر میں بھی ایک کرتب باز انسان کو امت اسلامیہ کی تاریخ میں انہی ناموں سے یاد کیا جائے گا۔ جو ہر موقع پر اپنا رنگ بدلتا رہتا ہے۔ اور اس سے زیادہ افسوس اس شخص کے اندھے عقیدت مندوں پر جو ہر رنگ میں ان کی حمایت اور دفاع میں جان کی بازی لگاتے نظر آتے ہیں۔
ایک زمانے میں موصوف محترم کی سعودی عرب سے اچھی خاصی الفت تھی۔ جہاں کی امداد سے موصوف کے ادارے اور روزگار بہ حسن و خوبی رواں دواں تھے۔ پھر یکایک ایک روز پتہ نہیں سعودی عرب نے ان کی شان عالی میں ایسی کیا گستاخی کردی کہ وہی سعودی عرب اب کفرستان بن گیا۔ ان کی نظر میں جو ملک کبھی اسلام کا خادم تھا موصوف نے اور ان کے عقیدت مندوں نے اسے امریکہ، ہیود اور عیسائیوں کا خادم و غلام قرار دیا۔ اب قبلہ بدل چکا تھا۔ اس لئے ان کی نظروں میں ایران جیسا مسلم دشمن ملک اسلام کا ہیرو اور محافظ قرار پایا۔
ان کے خوب صورت کرتوت کو دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے یہ موقع پرستی اور تلون مزاجی کوئی مقدس عمل ہو۔ اسی لئے یہ کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ مشہور زمانہ دہشت گرد تنظیم داعش کے سرغنہ البغدادی کے نام موصوف محترم نے ایک خط لکھ کر ان کے اعمال کو سراہا۔ اور انہیں امیر المؤمنین تک کہہ ڈالا۔ شاید انہیں یہ بھی احساس نہ ہوا کہ اپنی ہوس کی خاطر انہوں نے اسلام کی شبیہہ بگاڑنے کی کوشش کی۔ اور گویا انہوں نے دنیا والوں کے اس الزام کو سچ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اسلام دہشت گردی کا مذہب ہے ( معاذ اللہ)۔
سعودی عرب کے خلاف ان کے پیٹ کا مروڑ انہیں کبھی چین سے بیٹھنے نہیں دیا۔ اور ہندوستانی مسلمانوں کو سعودی کے "ظالموں" سے اور ان کے "ظلم" سے آگاہ کرنے لگے۔ گویا یہ ہند نہ ہوا عرب ہوگیا۔ یا کہ اب ہند میں کوئی ظالم نہ رہا اور یہاں مکمل امن قائم کرنے کے بعد موصوف کو خارجہ نظریات و منصوبوں کے تحت سعودی عرب میں امن قائم کرنے کی ذمہ داری الہام کی گئی ہے۔
ظلم کے خلاف بولنا غلط ہرگز نہیں ہے! پھر چاہے ظالم مقدس ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن منتخب ظالموں کو نشانہ بنانا اور دیگر کو معصوم قرار دینا بہ ذات خود ایک ظلم ہے۔ موصوف سعودی عرب کے خلاف تو کھلی تلوار ہیں، لیکن فرعون وقت کو وہ منصف قرار دے رہے رہیں۔ ہزاروں مسلمانوں کے قتل کے ذمہ دار شخص کی وہ تعریف کرتے ہیں۔ اور ان کے نظام پر قصیدہ خواں ہیں! اور طرہ یہ ہے کہ موصوف ایک مولوی ہیں، اور بہت معتبر ادارے سے تعلیم یافتہ ہیں۔
ان کے اندھے عقیدت مندوں سے میرا سوال ہے کہ موصوف محترم کے مطابق کیا آپ بھی اس زمانے کے فرعون و نمرود کو منصف مانتے ہیں؟! اگر نہیں تو آپ کو احتجاج کرنا چاہئے۔ اور اپنی عقیدت کا قبلہ بدلنا چاہئے۔ اللہ ہم سب کو عقل سلیم عطا فرمائے۔
0 تبصرے:
Post a Comment