وہ اک غم گین سی شب تھی، غموں سے میں بھی بوجھل تھا
غموں کے بیچ مجھ کو خواہشوں نے آکے یوں گھیرا
بڑی چاہت ہوئی کہ آج کوئی اپنا آ جائے
دو میٹھے بول بولے مجھ کو سینے سے لگا جائے
مجھے کچھ آسرا دے اور مری ڈھارس بندھا جائے
مری ہمت جو پژمردہ ہے اس کو وہ بڑھا جائے
اسی امید پر اس رات کچھ کھویا ہوا تھا میں
خوشی کی رات تھی لیکن بہت رویا ہوا تھا میں
افق پر تھی سیاہی پر نگاہیں اس پہ اٹکی تھیں
کہ جیسے کوئی تارہ ٹوٹ کر دامن میں آئے گا
کوئی تو آہی جائے گا مجھے اپنا بنائے گا
کہ کل کو عید جب ہوگی وہ اپنے گھر بلائے گا
سویوں سے بھرا شیریں سا اک پیالہ بھی لائے گا
کہے گا عید کی خوشیاں تجھے یارا مبارک ہوں
تری امید بر آئے تجھے خوشیاں میسر ہوں
نہ جانے کب اسی چاہت میں میری آنکھ بھر آئی
یہ آنکھیں بھی بڑی کم ظرف تھی فورا امڑ آئی
انہی بھیگی ہوئی آنکھوں میں پھر کب نیند بھی آئی
پھر اک ننھی پری نے خواب میں آکر مجھے چھیڑا
بڑی معصوم سی تھی وہ بہت ہی شوخ و چنچل تھی
سراپا سے تو وہ بالکل مری بیٹی سی لگتی تھی
مجھے آکر جھنجھوڑا اور پھر گویا ہوئی مجھ سے
مرے بابا یہ آنسو کیوں ہماری عید کل ہے نا
مجھے عیدی نہیں دینا مگر تم پاس آ جانا
سہیلی باپ کی انگلی پکڑ کر جب نکلتی ہے
تمہارے بن ہماری عید بھی ماتم سی لگتی ہے
میں اک مسکین سی کب تک اسی اک آس میں بیٹھی
کہ بابا آج تو میری خوشی کی لاج رکھ لیں گے
مری خاطر کم از کم عید کو گھر آہی جائیں گے
مجھے ماں نے سلایا اور خود رونے لگی وہ بھی
چھپا کر اپنا منہ پلو میں غم دھونے لگی وہ بھی
مجھے پھر خواب کی دنیا میں اک کھنڈر نظر آیا
اسی ویران بستی میں بہت مغموم سا کوئی
سراپا غم تھا اس کی آنکھ بھی اشکوں میں ڈوبی تھی
جھجھک کر جو قریب آئی تو دیکھا آپ ہیں بابا
مجھے جو چاہئے تھا وہ مجھے اب مل چکا بابا
یہ عیدیں تو خوشی کے دن ہیں کوئی ان میں روتا ہے؟
چلو اب آنکھ پوچھو اور ذرا سا مسکرا دو نا
چلو اٹھو نا بابا دیر ہوجائے گی دیکھو نا
تمہارے سنگ اب مجھ کو بھی پڑھنے عید جانا ہے
غموں کے بیچ مجھ کو خواہشوں نے آکے یوں گھیرا
بڑی چاہت ہوئی کہ آج کوئی اپنا آ جائے
دو میٹھے بول بولے مجھ کو سینے سے لگا جائے
مجھے کچھ آسرا دے اور مری ڈھارس بندھا جائے
مری ہمت جو پژمردہ ہے اس کو وہ بڑھا جائے
اسی امید پر اس رات کچھ کھویا ہوا تھا میں
خوشی کی رات تھی لیکن بہت رویا ہوا تھا میں
افق پر تھی سیاہی پر نگاہیں اس پہ اٹکی تھیں
کہ جیسے کوئی تارہ ٹوٹ کر دامن میں آئے گا
کوئی تو آہی جائے گا مجھے اپنا بنائے گا
کہ کل کو عید جب ہوگی وہ اپنے گھر بلائے گا
سویوں سے بھرا شیریں سا اک پیالہ بھی لائے گا
کہے گا عید کی خوشیاں تجھے یارا مبارک ہوں
تری امید بر آئے تجھے خوشیاں میسر ہوں
نہ جانے کب اسی چاہت میں میری آنکھ بھر آئی
یہ آنکھیں بھی بڑی کم ظرف تھی فورا امڑ آئی
انہی بھیگی ہوئی آنکھوں میں پھر کب نیند بھی آئی
پھر اک ننھی پری نے خواب میں آکر مجھے چھیڑا
بڑی معصوم سی تھی وہ بہت ہی شوخ و چنچل تھی
سراپا سے تو وہ بالکل مری بیٹی سی لگتی تھی
مجھے آکر جھنجھوڑا اور پھر گویا ہوئی مجھ سے
مرے بابا یہ آنسو کیوں ہماری عید کل ہے نا
مجھے عیدی نہیں دینا مگر تم پاس آ جانا
سہیلی باپ کی انگلی پکڑ کر جب نکلتی ہے
تمہارے بن ہماری عید بھی ماتم سی لگتی ہے
میں اک مسکین سی کب تک اسی اک آس میں بیٹھی
کہ بابا آج تو میری خوشی کی لاج رکھ لیں گے
مری خاطر کم از کم عید کو گھر آہی جائیں گے
مجھے ماں نے سلایا اور خود رونے لگی وہ بھی
چھپا کر اپنا منہ پلو میں غم دھونے لگی وہ بھی
مجھے پھر خواب کی دنیا میں اک کھنڈر نظر آیا
اسی ویران بستی میں بہت مغموم سا کوئی
سراپا غم تھا اس کی آنکھ بھی اشکوں میں ڈوبی تھی
جھجھک کر جو قریب آئی تو دیکھا آپ ہیں بابا
مجھے جو چاہئے تھا وہ مجھے اب مل چکا بابا
یہ عیدیں تو خوشی کے دن ہیں کوئی ان میں روتا ہے؟
چلو اب آنکھ پوچھو اور ذرا سا مسکرا دو نا
چلو اٹھو نا بابا دیر ہوجائے گی دیکھو نا
تمہارے سنگ اب مجھ کو بھی پڑھنے عید جانا ہے
۞۞۞
LIKE↓& SHARE↓ it on Facebook
۞۞۞
Follow↓ me on Facebook
آپ کی رائے جان کر ہمیں خوشی ہوگی
0 تبصرے:
Post a Comment