Wednesday, May 18, 2016

مراسم خون کے بھی ٹوٹ جاتے ہیں

0 تبصرے
غزل


مراسم خون کے بھی ٹوٹ جاتے ہیں
غلط فہمی سے بندھن چھوٹ جاتے ہیں

یہی کچھ سوچ کر لب سی لیے میں نے
زباں کھلنے سے ہم دم روٹھ جاتے ہیں

کوئی بھی بات ہم سے برملا کہیے
اسے کیوں دل میں رکھ کر ٹوٹ جاتے ہیں

حسیں شاموں کے غم اور آپ کی یادیں
دلِ مضطر کی دھڑکن لوٹ جاتے ہیں

دلوں کو جوڑنا ہے مشغلہ میرا
یہ آخر بارہا کیوں ٹوٹ جاتے ہیں

ظفر یہ حق بیانی کر نہ دے رسوا
ترے اپنے ہی تجھ سے روٹھ جاتے ہیں
‌۞۞۞




۞۞۞

LIKE& SHARE it on Facebook


۞۞۞
Follow me on Facebook
۞۞۞

0 تبصرے: