تحریر: ظفر شیرشاهبادی، کٹیہار
ملاحظہ:اس مضمون میں شیر شاہ
آبادیوں کے تعلق سے کچھ معلومات میرے ذاتی مشاہدے پر مبنی ہیں، اس لئے قارئین کو
اگر کسی بات سے اختلاف ہو یا غلط لگے یا کچھ حذف و اضافے کی ضرورت ہو تو مجھے ضرور
آگاہ کیجئے۔
شاید آپ یہ عنوان دیکھ کر
چونک گئے ہوں۔ تو آئیے ذرا اس لفظ اور اس کے وارثین کے بارے میں کچھ جائزہ لیتے
ہیں۔
میری زندگی اور خانہ
بدوشی تقریبا مترادفات میں سے ہیں۔ وہ یوں کہ خانہ بدوشوں کی طرح کسی ایک شہر کو
اپنا شہر یا قریہ نہیں کہہ سکتا ہوں۔ پیدائش سے لے کر اب تک مسلسل خانہ بدوشی ہی
میری تقدیر کا ایک لازوال حصہ بنی ہوئی ہے۔ بچپن کی تقریبا آٹھ بہاریں تو اتر
پردیش میں گذریں، پھر وہاں سے کچھ عرصے کے لئے آبائی وطن آنا ہوا۔ اور اس کے بعد
جو وطن اور اپنوں سے دور ہوا تو اب تک قربت کا کوئی راستہ نظر ہی نہیں آتا۔
میں یہاں اپنی سوانح
لکھنا نہیں چاہتا۔ لیکن جس وجہ سے یہ مضمون لکھ رہا ہوں وہ میری زندگی سے ہی منسلک
ہے۔ وطن سے دور جب والد صاحب تدریسی خدمات کے لئے مہاراشٹر گئے، تو وہیں کے ہوکر
رہ گئے۔ ظاہر ہے حکومت کے دفتری امور میں اندراج ضروری تھا۔ سو اس زمانے میں صرف
نام لکھوا دیا۔ اور ضروری کاغذات بنوا لئے۔ کہتے ہیں کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہوتی
ہے۔ بس یوں ہی سمجھئے۔ ابتداء میں تو کوئی مسئلہ نہیں ہوا، لیکن جب کاغذات کی
تیاری میں "سَر نیم" کی ضرورت پڑی تو ماتھا ٹھنکا، کہ آخر ہمارا "سَر
نیم" ہے کیا؟ اور یہیں سے تلاش شروع ہوئی، اور "شیر شاہ آبادی ہا" پر یہ تلاش تقریبا
ختم ہوگئی۔
نوعمری میں ایک بار والد
صاحب سے پوچھا تھا " ابا، ہم کس نسل یا قبیلے سے ہیں؟" تو اس وقت انہوں
نے کہا تھا "بیٹا ہمارے یہاں نسلی بھید بھاؤ مٹانے کے لئے قبیلے کا نام نہیں
لکھا جاتا۔ ہم لوگ در اصل 'شیخ' قبیلے سے ہیں۔ جن کو سلطان شیر شاہ سوری نے اس
علاقے میں بسایا تھا۔ اس لئے ہم کو 'شیر شا بادی' (شیرشاہ آبادی) کہا جاتا
ہے۔" وہ بات آئی اور چلی گئی۔ اب جب کاغذات میں سَر نیم شامل کرنے
نوبت آئی تو میں نے سوچا کہ اس معاملے کی تحقیق کرلینی چاہئے۔ تب میں نے کئی جگہ
تلاش کیا تو پتہ چلا کہ والد صاحب کی بات صد فی صد درست تھی۔
تعارف اور ابتدا
ہمارے علاقے میں بسنے
والی مسلم آبادی جن کی اکثریت سلفی ہے وہ خود کو شیرشاہ آبادی کہلواتے ہیں۔ دراصل
سلطان شیرشاہ سوری نے متحدہ بنگال کے مرشدآباد کے لال گولہ میں ان کے آباء و اجداد کو آباد
کیا تھا۔ اس آبادی کو فارسی میں " شیر شاہ آبادی ہا" کہا جاتا تھا۔ یعنی
"وہ آبادی جسے شیر شاہ نے بسایا"۔ بعد میں اس لفظ کو ہی اس قوم کی شناخت
کے طور پر اپنالیا گیا۔ اور زبان زد ہوکر یہ لفظ "شیر شاہ باد یا" ہو
گیا۔ اس علاقے کو "شیرشاہ باد پرگنہ" کے نام سے موسوم کیا گیا تھا۔ یہ برادری کافی وسیع پیمانے پر پھیلی ایک مسلم آبادی پر مشتمل ہے۔ جو ہندوستان، بنگلہ دیش اور
نیپال میں آباد ہے۔
ان کی ابتدا کے متعلق
مختلف قسم کے آراء پائے جاتے ہیں.
1.
یہ براداری افغانستان سے
آئے شیر شاہ سوری کے نسب سے ہے.
2.
عرب کے تجارتی قبیلے کو
شیر شاہ سوری نے اپنی حکومت میں بسنے دیا تھا. وہی لوگ شیر شاہبادی ہیں. اور اس
قول کی تائید میں کچھ لوگ اس لیے بھی گئے ہیں کیوں کہ اس برادری میں بہت سے اطوار
عربوں کی طرح ہیں. اور بول چال میں بھی عربی الفاظ مستعمل ہیں.
3.
مغلوں سے ہار کر شیر شاہ
سوری کی فوج کے لوگ ندی کے کنارے وادیوں میں اپنے ہتھیار زمین میں گاڑ کر اپنی
شناخت چھپانے کے لیے کسان بن گئے. اور پھر وہ ابھر نہیں پائے.
4.
شیر شاہ سوری نے کچھ مظلوم
مسلمانوں کو متحدہ بنگال کے لال گولہ علاقے میں بسایا تھا. وہی شیر شاہ آبادی
ہوئے.
بہ ہر حال ان تمام آراء
کو ملاکر یہی کہا جاسکتا ہے کہ شیر شاہ سوری کے ذریعے بسائی گئی بستی ہی اس برادری
کی ابتدا ہے. اور ممکن ہے اس بستی میں فوج اور عرب کے تاجر بھی رہے ہوں. کیوں کہ
اس برادری کی بولی اور چال چلن سے اس بات کو تقویت ملتی ہے.
نام
اور وجہ تسمیہ:
بہار میں اسے ”شیخ“ قبیلے سے جوڑا جاتا ہے. یہی وجہ ہے کہ ہمارے
پرکھوں میں اکثر لوگوں کے نام کے ساتھ شیخ کا لفظ پایا جاتا ہے. جب کہ مغربی بنگال
میں بعض لوگوں کے مطابق ان کا تعلق ”بیدیہ“ قبیلے سے ہے۔ حالاں کہ یہ صرف ایک اشتباہ ہے.
کیوں کہ انھیں ”بادیا “یا ”بادھیا
“ کے نام سے جانا جاتا ہے، جس کی وجہ سے کچھ لوگ ”بیدیہ“ اور ”بادیا “ کے صوتی یکسانیت کی وجہ سے اشتباہ
میں پڑگئے، اور دونوں کو ایک مان لیا. جب
کہ دونوں برادری کی بول چال، رہن سہن، رسم و رواج بالکل مختلف ہے. بنگلہ زبان ہی
ان میں یکسانیت کی ایک وجہ ہے. حال آں کہ دونوں کا لہجہ بھی مختلف ہے. مغربی بنگال میں ان کے بعض قبیلے اپنے نام کے ساتھ ”منڈل“، ”بشواس“ ، ”وِشواس“ یا ”بِسّاس“، ”مونّا“ یعنی ”مُلّا“ وغیرہ نام استعمال کرتے ہیں۔ جب کہ بہار میں ابتدائی ادوار میں ”شیخ“ اور ”بشواس“ ، ”وِشواس“ یا ”بِسّاس“ استعمال کیا جاتا تھا۔ مرور ایام کے ساتھ اب ان ناموں کا
استعمال متروک ہوتا جارہا ہے۔
چوں کہ یہ تین الگ الگ ممالک کے الگ الگ اضلاع میں پائے جاتے ہیں، اس
لئے انہیں کئی ناموں سے جانا جاتا ہے۔ ”شیرشاہ بادی ہا “سے مختصر کرکے ”بادھیا“ (جو کہ ”بادی ہا“ کی زبان زد شکل ہے)
یا ”بادیا“بھی کہا جاتا ہے۔ لیکن مغربی
بنگال میں لفظ ”بادیا“ کو لے کر اشتباہ ہو گیا ۔ جس کی وجہ سے اس برادری کا تعارف
کرانے والے تاریخ داں اسے ”بیدیہ“ سمجھ بیٹھے. کئی جگہ اسی لفظ کی بنا پر انھیں ”بھاٹیا“
یا ”بھاٹھیا“ بھی کہا جاتا ہے. جس کا ایک مفہوم ہے’نشیبی علاقوں میں رہنے والے‘۔ چوں کہ ان کی آبادی خصوصاً بہار میں زیادہ تر
نشیبی علاقوں میں آباد ہے۔ اس لیے یہ مفہوم بھی ان کے نام کے مطابق ہے۔
بہار کے سرحدی اضلاع اور
نیپال میں انھیں مغربی بنگال کے ضلع مالدہ سے منسوب کرتے ہوئے ”مالدہیا“ بھی کہتے
ہیں. لیکن بہار میں اس برادری کے فعال سیاست داں مرحوم مبارک حسین صاحب اور
ان کے ساتھ کچھ اور سماجی خدمت گاروں کی محنت سے اس برادری کو ”شیرشاہبادی“ نام سے
موسوم کیا گیا۔اور اس برادری کو ریزرویشن بھی دلایا. اللہ ان خدام قوم کی خدمات کو
قبول فرمائے.
زبان و محل وقوع:
یہ قوم برصغیر کے تین
ممالک ہندوستان، نیپال اور بنگلہ دیش کے مخصوص خطوں میں آباد ہے۔ ہندوستان میں یہ
چار مختلف ریاست بہار، مغربی بنگال، آسام اور جھارکھنڈ کی آپسی سرحدوں کے اضلاع
میں یہ پھیلے ہوئے ہیں۔ جن میں بہار کے کٹیہار، پورنیہ، ارریہ، کشن گنج، سپول مغربی
بنگال کے مالدہ، مرشدآباد، اتراور دکھن دیناجپور، آسام کے درنگ، برپیٹا، گوال پاڑہ
اور دھوبڑی اور جھارکھنڈ کے صاحب گنج و پاکوڑ اضلاع شامل
ہیں۔ بنگلہ دیش کے چاپائی نواب گنج اور اس کے قرب وجوار میں اور نیپال میں سپول سے
متصل کچھ علاقوں میں آباد ہیں۔
گرچہ یہ قوم مذکورہ تین ممالک کے مختلف خطوں میں
آباد ہے، جہاں کی علاقائی اور دفتری زبانیں بالکل مختلف ہیں ۔ لیکن اس
قوم کی مادری زبان بہر حال بنگلہ ہے۔ جس کو وہ اپنے الگ لہجے میں بولتے
ہیں۔ اور اس خاص لہجے کو بادھیا یا شیرشاہ آبادی لہجہ کہا جاتا ہے۔ جوکہ صرف بولی
ہے۔ ابھی تک اس بولی کو زبان کادرجہ نہیں ملا ہے۔ ذریعۂ معاش کی تلاش میں ان کے
نوجوان اور ادھیڑ عمر کے افراد دیگر ریاستوں کا رخ کرنے لگے۔ پہلے یہ سلسلہ بہت کم
تھا، لیکن اب تو تقریبا ہر گھر کا ایک فرد گھر سے باہر کسی دوسری ریاست یا دوسرے
ملک میں مقیم ہے۔ اور اسی وجہ سے انہیں مجبوراً دوسری زبان کی ضرورت ہوئی۔ اور وہ
بنگلہ کے علاوہ اردو بولنے لگے۔ لیکن بنگلہ زبان کے لہجے اور بناوٹ کی وجہ سے
عموما یہ پہچان لئے جاتے ہیں۔
بنگلہ زبان کی دو بنیادی
انفرادیت یہ ہے کہ اس زبان میں تذکیر وتانیث کے لئے الگ صیغے نہیں ہوتے ہیں، اس
لئے یہ لوگ اردو یا ہندی میں بھی یہ فرق نہیں کرپاتے ہیں۔ اور بنگلہ زبان کے تمام
الفاظ کا تلفظ تقریبا گول پڑھا جاتا ہے۔ اس لئے یہ اردو یا ہندی کے الفاظ کو بھی
اسی اندازسے پڑھتے ہیں۔ اورانہی دو وجوہات کی بنا پر یہ اہل اردو و ہندی افراد کا
نشانۂ تضحیک بنتے ہیں۔ یہ مسئلہ صرف "شیرشاہبادیوں" کا نہیں ہے۔ بلکہ یہ
تمام بنگلہ بولنے والوں کا ہے۔ الا ماشاء اللہ۔
ریاستی اور لسانی
عصبیت کا جب دور چلا تب سے بہار کے علاقوں میں آباد شیرشاہ بادیوں کے لئے ہندی
سیکھنا ضروری ہوگیا۔ پہلے ان کی مادری زبان کا خیال کرتے ہوئے بہار میں بھی
اسکولوں میں بنگلہ زبان میں پڑھائی ہوتی تھی، اور نصاب میں بنگلہ کی کتابیں شامل
تھیں، یا یوں کہیں کہ پورا نصاب ہی بنگلہ میں تھا۔ لیکن اب اسکولوں سے بنگلہ زبان
کو نکال دیا گیا ہے۔ اس لئے بہار میں آباد شیر شاہبادیوں کی زبان میں خاصا بدلاؤ
آگیا ہے۔ ان کی مادری زبان میں اب اردو اور ہندی کے بہت سے الفاظ شامل ہوگئے ہیں۔
اور مجھے لگتا ہے وہ دن بھی آئے گا جب دونوں کی زبانیں بہت حد تک مختلف ہوجائیں۔
بالکل اسی طرح جس طرح ہندی اور اردو میں اختلاف ہے۔
رہن سہن:
اس قوم کی عوام عموما ان
پڑھ، محنت کش اور کسان ہے۔ اور یہ گنگا اور اس کی شاخوں کی وادیوں میں آباد ہے۔ جو
پڑھتے ہیں وہ زیادہ تر مدرسوں اور مکتبوں کی دین ہیں۔ اس لئے اس علاقے
میں مولوی زیادہ پائے جاتے ہیں۔ اور الحمد للہ نامور اور
قابل علماء کی خاصی تعداد بھی موجود ہے۔ مدارس میں پرانا نظامی نصاب
شامل ہے، جو دور حاضر کی ضروریات سے یکسر مختلف ہے۔ جس کی وجہ سے یہاں
کے طلبہ آگے بڑھ نہیں پاتے۔ اور ترقی کے لئے عموما دیگر ریاستوں میں جانا ضروری
تصور کرتے ہیں۔
نوجوان اور پڑھا
لکھا طبقہ شرٹ اور لنگی پہنتا ہے۔ گمچھا رکھنا یہاں کا ایک خاصہ ہے. جو بہار میں
زیادہ رائج ہے. ادھیڑ عمری کے بعد عموما یہ شرٹ کی بجائے کرتا اور لنگی پہنتے ہیں۔
لنگی یہاں کا خاصہ اور جغرافیائی ضرورت بھی ہے۔ عورتیں شادی سے پہلے شلوار قمیص
پہنتی ہیں، اور شادی کے بعد ساڑی۔ اور ساڑی اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ یہ عورت
شادی شدہ ہے۔
کھان پان
پسندیدہ کھانا عموماً
موٹا چاول ہے، جسےاُسنا، بھنا یا بُھجیا چاول بھی کہتے ہیں۔ روٹی صرف صبح ناشتے
میں کھاتے ہیں۔ ناشتے کو یہ لہاری کہتے ہیں. (یہ لفظ اصلاً نہاری ہے، یعنی دن شروع
ہونے کا کھانا۔ لیکن شیرشاہبادی لہجے میں
کچھ حروف ایسے ہیں جنھیں دوسرے حرف سے بدل دیا جاتا ہے. انھیں میں سے حرف 'ن' ہے.
جسے عموما اس بولی میں 'ل' سے بدل دیا جاتا ہے. جیسے ناک کو لاک، نیا کو لویا، ناچ
کو لاچھ کہتے ہیں). بعض گھرانوں میں صبح بھی چاول سے ہی ناشتہ ہوتا ہے۔ پہلے باسی
بھات یا پنتا بھات (باسی چاول) کچے پیاز، نمک اور مرچ سے لہاری میں
کھانا کافی محبوب و مرغوب تھا، لیکن جدید دور میں اس کھانے کو تقریبا چھوڑ دیا گیا
ہے. چاول کے ساتھ مچھلی مرغوب غذا ہے جو ندیوں کی کثرت کی وجہ سے وافر مقدار میں
موجود بھی ہے۔
اس برادری کے کچھ مخصوص
پکوان بھی ان کی شناخت ہے. جو مختصرا ذیل میں درج ہیں.
 |
اندھرسا |
1.
اندھرسا (اندرشاہ):
یہ
ایک طرح کی میٹھی پوری (پولی) ہے. جسے اروا
چاول کے آٹے میں گُڑ یا شکر ملاکر تیل میں تلا جاتا ہے. جو کیک کی طرح پھول جاتا
ہے. یہ کافی مرغوب پکوان ہے. عموماً کسی تقریب، عید بقرعید، شادی بیاہ یا پھر گھروں
میں کسی بہت ہی خاص مہمان یا اقارب کی آمد پر بنایا جاتا ہے.
 |
پوری |
2. پوری (پولی): یہ دیوالی میں بنائے
جانے والے مشہور پکوان "گُجیا" کی ایک شکل ہے. گیہوں کے آٹے یا میدے سے
روٹی بنائی جاتی ہے. اور اسے گلاس یا کسی گول برتن کے ذریعے کاٹ کر چھوٹے چھوٹے
گول ٹکڑے بنالیے جاتے ہیں. پھر ان چھوٹی چھوٹی گول روٹیوں میں چنے کے دال اور تِل
یا تیسی کے بنے ہوئے حلوے بھر کر ان کو موڑ کر بند کر دیا جاتا ہے. پھر اسے تیل
میں تل لیا جاتا ہے. بہت ہی لذیذ پکوان ہے. جو ٹھنڈی میں کئی دنوں تک کھایا جاتا
ہے.
 |
پیٹھا |
3.
پیٖٹھا (پیٹھیا): یہ پوری کی شکل کا ایک
پکوان ہے. بس فرق یہ ہے یہ چاول کے آٹے کا بنتا ہے. اور اسے تیل میں تلنے کی بجائے
بھاپ میں پکایا جاتا ہے. یہ صرف ٹھنڈی کے دنوں میں کھایا جاتا ہے.
نوٹ: بنگلہ میں چاول کے
آٹے کو بھاپ سے پکا کر بنانے والے ہر پکوان کو پیٹھا کہا جاتا ہے. اور چاول یا
گیہوں کے آٹے یا میدے کو تیل میں تل کر بنانے والے ہر پکوان کو 'پُولی' یا 'پوری'
کہا جاتا ہے.
4.
کھیر: پورے بھارت میں کھیر کو
ایک امتیازی حیثیت حاصل ہے. اور عموما چاول اور دودھ سے بننے والے ہر میٹھے پکوان کو
کھیر کہا جاتا ہے. کھیر کی کئی قسمیں اس برادری میں مشہور ہیں.
أ.
کھیر (عام): اروا چاول، دودھ، شکر
اور خوشبو کے لیے بڑی و چھوٹی الائچی اور تیز پتہ ملا کر بنایا جاتا ہے. عموما
شادیوں کے موقعوں سے یہ پکوان بنایا جاتا ہے.
 |
پائیس |
ب.
پائیس: بنگال کے شیر شاہبادیوں
کے یہاں یہ ایک نفیس قسم کا پکوان ہے. جو بالکل کھیر ہی کی طرح ہے. بس اس میں قیمتی
اور خوشبودار چاول کا استعمال ہوتا ہے. اور خشک میوہ جات بھی ڈالے جاتے ہیں. اور
کھیر کے مقابلے میں یہ زیادہ گاڑھا ہوتا ہے.
ج.
کھیرسا (کھیرسیہ): یہ بھی کھیر ہی کی ایک
شکل ہے. لیکن اس میں شکر کی جگہ گُڑ کا استعمال کیا جاتا ہے. جس سے یہ گُڑ کی رنگ
کا ہوجاتا ہے. یہ شادی کی خصوصی رسم تُھوبڑا میں بنایا جاتا ہے.
 |
آئینکھیہ |
د.
آئینکھیہ: اس کھیر میں چاول کے آٹے
کا استعمال ہوتا ہے. اس میں چاول کے آٹے کو گرم پانی ملاکر گوندھا جاتا ہے. اور اسے
ہاتھوں میں رگڑ کر چھوٹے چھوٹے لمبوترے شکل میں بنا کر دودھ اور شکر یا گڑ سے
پکایا جاتا ہے. جو مرغوب اور لذیذ پکوان ہے. یہ کسی تقریب کے ساتھ خاص نہیں ہے.
البتہ گھروں میں مہمان یا اقارب کی آمد پر بھی بنایا جاتا ہے.
ه.
جھال: یہ بھی کھیر کی ہی ایک
شکل ہے. جس میں چاول کے آٹے کو گوندھ کر چھوٹے چھوٹے گول چپٹے ٹکڑے بناکر دودھ اور
گُڑ میں پکایا جاتا ہے. اس خاص بات یہ ہے کہ اس میں ادرک، کالی مرچ اور سونٹھ
ملاکر اسے میٹھے کے ساتھ ساتھ تیز بھی بنایا جاتا ہے. جو عموماً زچگی کے بعد زچہ
کے لیے بنایا جاتا ہے. لیکن گھر کا ہر فرد بڑے چاؤ سے اسے کھاتا ہے. عموماً سردیوں
میں جب نزلہ اور کھانسی وغیرہ کا اثر زیادہ ہوتا ہے تو بھی اسے بنایا جاتا ہے. جو
موسمی بیماری میں کافی فائدہ مند ہے.
 |
چتائی |
5.
چِتائی: جنوبی ہند کے مشہور
پکوان 'دوشا' کی طرح کا پکوان ہے. چاول کے آٹے کے گھول کو توے پر پکایا جاتا ہے.
عموماً اسے کھیر یا آم سے کھایا جاتا ہے.
 |
پاٹی ساپٹا |
6.
پاٹی ساپٹا: بنگال میں یہ ایک آسان
سا پکوان ہے. گیہوں کے آٹے کے گھول سے چتائی کی طرح دوشا بناکر اس کے بیچ میں چاول
کے آٹے کا کھیر رکھ کر لپیٹ دیا جاتا ہے.
7.
دُھکّی پیٹھا: یہ چاول کے موٹے آٹے کو
گُڑ سے ملاکر سانچے میں رکھ کر بھاپ سے پکایا جاتا ہے. سردی کے دنوں میں بہترین
ناشتہ ہے. جسے گرما گرم کھایا جاتا ہے. ویسے اب اس کا چلن بہت کم ہوگیا ہے.
 |
ہاتھ پاکا روٹی |
8.
ہاتھ پاکا روٹی: ہتھیلی کی تھپکی سے بیلی
ہوئی موٹی روٹی۔ عموما گیہوں کے آٹے کے ساتھ چاول یا ماش (اُرد) کے آٹے سے ملاکر
یہ روٹی بنائی جاتی ہے. عموماً لہاری میں یہی روٹی کھائی جاتی ہے.
 |
چاول کی روٹی |
9.
چاول کی روٹی: چاول کے آٹے کو گرم پانی
سے گوندھ کر بیلن سے یا ہتھیلی کی تھپکی سے بنائی جاتی ہے. بیلن سے بنائی روٹی کو
کھیر کے ساتھ تقریبات میں پیش کیا جاتا ہے. جب کہ گھروں میں اسے گوشت کے ساتھ بھی
کھایا جاتا ہے.
10.
تال بڑا: پکے تاڑ کے رس کو سانچے
میں رکھ کر تیل میں تلا جاتا ہے. جو صرف تاڑ کے موسم میں ہی پایا جاتا ہے.
11.
پٹ سن کا ساگ: شیر شاہبادی معاشرے میں پٹ
سن کا ساگ کافی مرغوب اور محبوب ہے. جو ہر گھر میں بڑے شوق سے کھایا جاتا ہے. یہ
دو قسم کا ہوتا ہے. ایک کڑوا پٹ، جسے دیسی پاٹ کہا جاتا ہے. ساگ کے لیے ہی اس کی
کاشت کی جاتی ہے. جب کہ فارم پاٹ یا میٹھا پاٹ کو کھیتوں میں جوٹ تیار کرنے کے لیے
بویا جاتا ہے. لیکن لوگ اس کا ساگ بھی کھاتے ہیں. جو کڑوا نہیں ہوتا. عموما کڑوا
پٹ کو لوگ بہت رغبت سے کھاتے ہیں.
12.
آٹے کا لڈو: چاول کے آٹے کو کوٹ کوٹ
کر اس میں گُڑ اور سونٹھ ملا کر بڑے بڑے لڈو بنالیے جاتے ہیں. جو عموما زچگی کے
بعد سسرال کی طرف سے بہو کو تحفتاً بھیجا جاتا ہے.
13.
لیاکٹا بھات: گیلا چاول. عموما صبح
ناشتے کے لیے، یا پھر مریضوں کے لیے اسے بنایا جاتا ہے. یہ نمک ڈال کر زیادہ پانی
ڈال کر بنایا جاتا ہے. جو رقیق ہوتا ہے. جسے آلو کے بھرتے یا اچار کے ساتھ کھایا
جاتا ہے. بچے اس میں شکر ملا کر کھاتے ہیں. اب اس کا چلن کم ہونے لگا ہے.
14.
گھانٹی: اسے دلیہ کہا جاسکتا ہے.
گیہوں اور مکئی کے ٹکڑوں کو زیادہ پانی ملا کر نمک کے ساتھ پکایا جاتا ہے. اس میں
بسا اوقات آٹے سے گول اور چپٹے ٹکڑے ڈال کر پکایا جاتا ہے. صحت افزا غذا ہے. لیکن
اب یہ بھی تقریبا ناپید ہوچکا ہے.
15.
کھچڑی: برصغیر میں کھچڑی بہت ہی
معروف اور مقبول غذا ہے. لیکن شیر شاہبادیوں کے یہاں بننے والی کھچڑی کافی رقیق
ہوتی ہے. ماش (اُرد) کی دال اور چاول کو پیاز کے پتے یا پیاز، لہسن، ہری مرچ اور
دیگر مسالوں سے بنایا جاتا ہے. گھی اور اچار کے ساتھ اسے بہت رغبت سے کھایا جاتا
ہے.
16.
آٹے کا سالن: ماش (اُرد) کے آٹے یا
بیسن کو مختلف مسالوں سے پکایا جاتا ہے. اور بسا اوقات اس میں تیل میں تلے ہوئے
بڑے بھی ڈالے جاتے ہیں. کافی لذید سالن ہے.
17.
کالائیر بوڑی (اُرد یا ماش کی بری):اُرد یا ماش کے چھلکے اتار
کر اس کا آٹا تیار کیا جاتا ہے۔ اور پکے ہوئے کمھڑوں کو کدوکش کیا جاتا ہے۔ اس
کدوکش کمھڑے سے سارا پانی نتھرنے دیا جاتا ہے۔ پانی نچوڑنے کے بعد اس میں ماش کے
آٹے کو ملاکر خوب گوندھا جاتا ہے، یہاں تک کہ وہ آٹا ہلکا ہوکر پانی میں تیرنے کے
قابل ہوجائے۔ پھر اسے کسی صاف ستھرے باریک کپڑے یا جال میں چھوٹے چھوٹے ”بڑوں “ کی
شکل میں اس کپڑے پر بچھا دیا جاتا ہے۔ حسب
ذائقہ بعض لوگ اس میں نمک اور سرخ مرچ کا سفوف وغیرہ بھی ملاتے ہیں۔ پھر انھیں
اچھی طرح دھوپ میں خشک کر لیا جاتا ہے۔ اور پھر حسب ضرورت ترکاریوں میں ڈال کر
پکایا جاتا ہے۔ عموماً اسے آلو اور بینگن کے ساتھ پکایا جاتا ہے۔ بسا اوقات اس میں
چھوٹی مچھلی، جھینگا مچھلی یا خشک مچھلی بھی ملا کر پکایا جاتا ہے۔
بود و باش:
 |
مٹی کا گھر |
یہ عموماً کچے مکانوں میں
رہتے ہیں۔ بہار میں یہ کچے مکان "کھر" جو ایک قسم کی قد آدم گھاس ہے اس
سے مکانوں کی دیواریں اور چھپر بناتے ہیں۔ جب کہ مغربی بنگال میں مٹی کی دیواریں
اور مٹی کے "کویلو" سے ڈھلوان چھپر نما چھت بناتے ہیں۔ چوں کہ بہار میں
یہ گنگا اور دیگر ندیوں کے آس پاس آباد ہیں، اور ہر سال سیلاب جیسی قدرتی آفت سے
دوچار ہوتے ہیں، اس لئے انہیں" کھر" نامی گھاس کی دیوار اور چھپر سے
کافی مدد ملتی ہے۔ جو سیلاب میں کسی بھی بڑے نقصان سے بچاتی ہے۔ اب جب کہ ترقیات
کا دور ہے تو لوگ پختہ کانکریٹ کی عمارتیں بھی بنوارہے ہیں۔ جس میں حکومت بہار کی
امداد بھی شامل ہے۔
پہلے بیل گاڑیوں کا رواج تھا۔ جو آج بھی کہیں کہیں
نظر آجاتا ہے۔
ادب و ثقافت:
اس برادری کی زبان گو کہ بنگلہ ہی ہے۔ لیکن یہ بنگلہ اپنے خاص لہجے میں بولتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کی بولی 'ادبی بنگلہ' سے کافی مختلف ہے۔ اور بسا اوقات ان کی بولی ایک غیر شیر شاہ آبادی بنگالی کے لیے سمجھنا مشکل ہوجاتا ہے۔ اور ان کی بولی اب تک زبان کی حیثیت نہیں پا سکی ہے۔ اس لیے ان کی ادب و ثقافت اب تک مکتوب نہیں ہونا ضروری ہے۔ کہ
اس قسم کی بول چال کو اب تک زبان کا درجہ نہیں ملا ہے۔ اس لیے ان کی کوئی
مکتوب ادب نہیں ہے۔ جو کچھ بھی ہے وہ سینہ بہ سینہ چلا آرہا ہے۔ جسے اب لکھنے کی
ضرورت ہے۔
پھوسٹی:
محاورہ یا ضرب المثل کو یہ لوگ پھوسٹی یا پھوشٹی کہتے ہیں۔ زندگی کے بیش قیمت اصولوں پر مبنی ان گنت محاورے اور ضرب الامثال اس برادری میں عام ہیں۔ اور ماضی قریب میں اس کا چلن ہر طبقے میں تھا۔ اب بھی بہ وقتِ ضرورت کسی بات کی مزید وضاحت کے لیے لوگ ان کا استعمال کرتے ہیں۔ بہ طورِ مثال چند محاورے دیکھیں:
- پائیٹھ پھیر آنچار؟ (ایک تو مزدور پھر اچار کی چاہت)
- عِلّوت جائی دھوئلے، خاصلوت جائی موئلے
- لاج نائی ہائلیا کے، لاج نائی جائلیا کے
بادھیا گیت:
اس قوم کا ایک خاصہ شادی
بیاہ کے موقعوں پر گائی جانے والی گیت ہے۔ جو عورتیں جھنڈ کی شکل میں گاتی ہیں۔ جو
اب تک کتابی شکل میں کہیں بھی موجود نہیں ہے۔ بس سینہ بہ سینہ یہ نغمے محفوظ ہوتے
آئے ہیں۔ ان گیتوں کا انداز بہت ہی نرالا اور دل چسپ ہے۔ مختلف موضوعات پر ازدواجی
زندگی کے احوال کو نظم کی شکل میں گایا جاتا ہے۔ مثلا:
1.
آنگنا جھوم جھوم جوڑ
کوبیتور ۔۔۔۔۔ باجے
2.
ناودا پاڑار چھونڑا گالا
سوبھائی کوکور
3.
کانکھے کولوس کورے بیہولا
4.
ہامار مون ٹا، سورے نا گے
ماں، سوسوریر سونگے جائیتے
یہ گیت اس قوم کی ادب کا
ایک نایاب حصہ ہیں۔ جن کو کتابی شکل میں محفوظ کرنا اس قوم کی ذمہ داری ہے۔
پوتھی:
اسلام کے واقعات کو نظم کی شکل میں لوگوں کو سنانا۔ جسے سننے کے لیے عوام کی مجلس لگا کرتی تھی۔ اب یہ چیز تقریبا ناپید ہوچکی ہے۔ اور پوتھی پڑھنے والے اب شاید ہی کوئی باقی ہوں۔
جھرنی:
سماج کی مختلف برائیوں کی نشاندہی، ان سے دور رہنے کی ترغیب، اور اخلاقیات و اسلامیات پر مختصر نظمیں۔ جنھیں جھنڈ کی شکل میں گایا جاتا ہے۔ اور ہر گانے والے کے ہاتھ میں جھاڑو یا کچھ تیلیاں ہوتی ہیں، جنھیں وہ گاتے ہوئے ایک ساتھ دُھن کے مطابق زمین پر مارتے ہیں۔ جس ایک قسم کی آواز پیدا ہوتی ہے۔ یہ مغربی بنگال کے بعض علاقوں میں اب بھی موجود ہے۔ اس میں استعمال ہونے والی زبان عموماً ادبی بنگلہ ہے۔
رسم و رواج
اس برادری میں قسم ہا قسم کے رسوم و رواج مروج ہیں۔ جن میں کچھ تو خالص ہندوانہ ہیں۔ اور انھی کو دیکھ کر اپنایا گیا ہے۔ ذیل میں کچھ رسوم درج ہیں:
1.
مسلمانی یا ختنہ:
عموماً مسلمان اپنے بچوں کو 5 -6 سال کی
عمر میں ختنہ کرواتے ہیں۔ جسے وہ مسلمانی کی تقریب کہتے ہیں۔ اس موقع پر باقاعدہ
دعوت کا انتظام کیا جاتا ہے۔ اور اعزہ و اقربا کو بلایا جاتا ہے۔ اور اسے اسلامی
رسم اور شعار مانا جاتا ہے۔ جب کہ صرف ختنہ کرنا ہی اسلامی شعار ہے۔ اس موقع پر
پُر شکوہ دعوت کا انتظام کرنا اسلام میں نہیں ہے۔
2.
بہو
/جمائی دکھائی: شادی سے قبل لڑکی یا لڑکا دیکھنے کے لیے
کئی لوگ حاضر ہوتے ہیں۔ اور اس موقع پر لڑکی والے اپنی استطاعت سے بڑھ کر کھانے
پینے کا انتظام کرتے ہیں۔ تاکہ اس کا اثر اچھا ہو۔ اس میں بڑے بزرگ لوگ عموماً مشکل اور پریشان کرنے والے
سوال کرکے لڑکے یا لڑکی کی حاضر دماغی اور لیاقت کا امتحان لیتے ہیں۔
3.
تُھوبڑا:
یہ شادی کی ایک رسم ہے۔ جسے شمالی ہند میں ابٹن یا ہلدی کی رسم کہتے ہیں۔ یہ بنگال
میں شادی سے ایک دن قبل اور بہار میں دو یا تین دن قبل ہوتی ہے۔ بلکہ بسا اوقات دو
دنوں تک چلتا ہے۔ اس میں دولہا اور دلہن کو اس کے گھر والے اور اڑوس پڑوس کے لوگ
ہلدی لگاتے ہیں۔ اور کھیرسیہ و اندھرسا کھلاتے ہیں۔ یہ ایک طرح کی تفریحی رسم ہے۔
جس میں دولہا یا دلہن کو اس کے بھائی کھلانے سے روکتے ہیں اور گیت گاکر پیسوں کا مطالبہ کرتے ہیں۔ پیسہ ملنے
کی شکل میں ہی اسے کھلانے کی اجازت ملتی ہے۔ اس رسم میں گاؤں کے جن جن گھروں کو
شادی کی دعوت ملی ہوتی ہے وہ اپنے گھر سے
اندھرسا یا کوئی میٹھا پکوان لے کر جاتے ہیں۔ اس رسم میں اختلاط مرد و زن ہی بہت معیوب
اور خلاف شرع ہے۔ مزید غیر محرموں سے ہلدی لگوانا بھی جائز نہیں ہے۔
4.
داماد
کی پیشی: یہ
شادی کے دن کی ایک رسم ہے۔ اس میں نئے نویلے داماد یعنی نوشہ کو آنگن یا
ہال میں ایک ٹیبل پر بٹھایا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ اس کے قریبی دوست یا رشتے دار بھی
ہوتے ہیں۔ اور نوشہ کی سالیاں اسے قسم ہا قسم کے ناشتے اور مشروبات پیش کرتی ہیں۔
جن میں سے کچھ سامان نقلی بھی ہوتے ہیں۔ اس میں یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ نوشہ نقلی
سامان پرکھ پاتا ہے یا نہیں۔ پھر آخر میں سالیاں اسے نوٹوں کی ہار پہناتی ہیں۔ اس
کے بعد نوشہ کی طرف سے ٹیبل پر رومال رکھا جاتا ہے۔ جس پر باری باری دلہن کے رشتے
دار آکر پیسہ ڈالتے ہیں اور اپنا تعارف اور رشتہ بتاتے ہیں۔اس میں کچھ معاملات
خلاف شرع ضرور ہیں۔ جن سے بچ کر بھی یہ رسم پوری کی جاسکتی ہے۔
5.
کھیر
کانچی یا برھنتا: یہ شادی کے بعد والے دن کی تقریب ہے۔ جس
میں حاضرین کی بڑی آؤ بھگت ہوتی ہے۔ اور یہ رشتہ بننے کی خوشی میں دعوت ہے۔ اس میں
لوگوں کو خصوصاً کھیر پیش کیا جاتا ہے۔
اور کھانا کھلایا جاتا ہے۔
6.
بیابھار:
بچہ ہونے سے پہلے اور بعد میں بھی دونوں گھرانوں سے زچہ کی صحت کے لئے معقول کھانے
پینے کے سامان پیش کیے جاتے ہیں۔ اس تقریب میں اقربا کے کچھ لوگوں کو ساتھ لے جایا
جاتا ہے۔ اور ان کی عزت و تکریم کے بعد انھیں واپس جانے دیا جاتا ہے۔ آم کے موسم
میں آم اور آٹا دیا جاتا ہے، جسے آماٹار بیابھار کہتے ہیں۔
اور
بھی بہت سارے رسوم ہیں ، جن کا ذکر کسی اور وقت کیا جائے گا۔ ان شاء اللہ
عقیدہ و منہج:
شیر
شاہبادی برادری بنیادی طور پر شافعی مسلک
کے ماننے والے ہیں۔ آج بھی گاؤں کے بزرگوں یا عورتوں سے پوچھتے ہیں تو وہ جواب
دیتے ہیں کہ "ہامرا سائفی مسلمان" یعنی ہم لوگ شافعی مسلمان ہیں۔ البتہ
اگر ان کا عمل دیکھا جائے تو یہ امام شافعی رحمہ اللہ کے اندھے مقلد نہیں ہیں۔ یہ
کتاب و سنت پر چلنے والے ہیں۔ اور ان کا عمل اور عقیدہ وہی ہے جو بر صغیر میں اہل
حدیث اور سلفیوں کا ہے۔ شاید ابتدائی دور میں شافی مسلک کے پیروکار رہے ہوں۔ لیکن
اب تو عوام اور علماء خود بھی اپنے آپ کو سلفی اور اہل حدیث کہلواتے ہیں۔
ان
کی ایک مختصر آبادی بریلویوں کی انتھک
کوشش سے بریلوی ہوچکی ہے۔ جو بہت متعصب بریلوی ہے۔ اور یہ لوگ وہ تمام بدعات میں
ملوث ہیں جن میں بریلوی ملوث ہیں۔ اللہ انھیں ہدایت سے نوازے۔
یہ علاقے مسلم اکثریتی ہونے کی وجہ سے ہمیشہ دونظری اور تعصب کے شکار
رہے ہیں۔ حکومت کی طرف سے ان علاقوں میں کسی بھی قسم کے ترقیاتی پیکیج عموما نہیں
پہونچتے۔ بعد میں اس دونظری کے خلاف کئی احتجاج ہوئے، اور اس پر کمیشن بھی بنائی
گئی۔ لیکن دو نظری اب بھی برقرار ہے۔ ہاں کچھ ترقیاتی امور ضرور ہوئے ہیں، لیکن
امید سے بہت کم۔ جس میں اس علاقے میں آباد مسلمانوں کی خود اپنی ہی کوتاہیاں اور
غلطیاں بھی ہیں۔ اب ضرورت ہے کہ اس علاقے کے مسلمانوں میں انقلاب لایا جائے۔ اور
عوامی بیداری کی تحریک چلائی جائے۔ اور یہ ذمہ داری یہاں کے علماء پر عائد ہوتی
ہے۔ اب علماء کو اپنے مفاد چھوڑ کر قوم کی ترقی کے لئے قربانیاں دینی ہوں گی۔ تبھی
یہ پچھڑا پن ختم ہوسکے گا۔