ایک الجھن ہے جو رہ رہ کر دماغ کو جھنجھوڑ رہا
ہے۔ کیا کوئی میری اس الجھن کو دور کرسکتا ہے؟
مدارس میں درس و تدریس پر مامور اساتذہ روز
اول سے ہی اپنی بقاء کی جنگ لڑرہے ہیں۔ اور الحمد للہ رزقِ حلال کی خاطر اسی روکھی
سوکھی پر اپنی نسلوں کو بھی طوعاً و کرھاً مولوی ہی بنارہے ہیں۔ پھر آخر انہی
مدارس کے ذمہ داران اور اعلی عہدے داران اور دیگر بہی خواہان کی روزی روٹی میں اس
قدر ”اَن لمیٹیڈ“ برکتوں کا
نزول کیسے ہونے لگتا ہے کہ وہ خود بھی جھگیوں سے ہجرت فرماکر عالیشان بنگلوں اور
حویلیوں میں گوشہ نشینی اختیار فرماتے ہیں، اور اپنی آئندہ نسلوں کے لئے پیشگی
سامان عیش وعشرت فراہم کرجاتے ہیں؟ اور مزہ تو یہ ہے کہ ان کی اولاد کے لئے مدارس شجر ممنوعہ ہوتے ہیں۔ کوئی انجینئر، کوئی ڈاکٹر اور کوئی ماہر معاشیات وغیرہ وغیرہ !!! مولوی بننا تو ان کے لئے گالی ہے۔ کوئی زیادہ ہی دور اندیش ہوا تو ایک آدھ اولاد کو مولویت کا سبق پڑھا دیتا ہے، تاکہ وہ اس جائیداد کا وارث بن سکے! ورنہ زیادہ تر چراغ تلے اندھیرا ہی ملے گا ۔
میں اس بات کی وضاحت چنداں ضروری نہیں سمجھتا
ہوں ، پھر بھی استثناء کر دوں کہ الحمد للہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ آج بھی کچھ
مدارس کے ذمہ داران رزق حلال کو ہی اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے ہوئے ہیں۔ اور وہ
اپنے ادارے کے تئیں مخلص بھی ہیں۔ اسی طرح شاید ایسے بھی ذمہ داران ہوں گے جو
الحمد للہ رزق حلال سے ساتھ بے تحاشہ مالی
ترقیاں بھی کررہے ہوں گے۔ لیکن آخر الذکر اوصاف کے حامل سے آج تک نہ تو میری ملاقات ہوئی ہے، اور نہ ہی ایسا کوئی نام سننے میں
آیا ہے۔
مجھے طعنوں اور لعنتوں سے کوئی فرق نہیں پڑنے
والا ہے۔ مالیگاؤں میں مسلم شریف پڑھانے والے استاذ محترم کے دہنِ مقدس سے میرے لئے ”آل ریڈی“ اتنی ساری
کڑوی کسیلی لعنتیں برس چکی ہیں کہ اب تو ہر لعنت میٹھی لگتی ہے!!! نہ میں
کسی کا زر خرید غلام ہوں کہ اسی کی مرضی کا بولوں گا! اور نہ
ہی ان جھوٹے خداؤں سے ڈرتا ہوں جو اپنے صنم کدوں کو بچانے کے لئے ہم جیسوں کو آئے دن یہودی ،نصرانی ، سازشی اور نہ جانے
کن کن حسین القاب سے نوازتے ہیں!!!
اس لئے جنابِ عالی ! اگر جواب معلوم ہو تو گفتگو میں
شامل ہوں ورنہ سلام علیکم!!!
۞۞۞
LIKE↓& SHARE↓ it on Facebook
۞۞۞
Follow↓ me on Facebook
آپ کی رائے جان کر ہمیں خوشی ہوگی