Monday, December 9, 2013

"आप" की छाप

"आप" की ये भी है एक छाप।
भाजपा का जोड़ तोड़ ना करने का संगलाप।
अरे बाप रे बाप !
ये तो है "आप" का अभिशाप।
लो भय्या, लग गई न वाट !!
बरसाती कीड़े कहते थे आप,
मानें न मानें आप।
अब तो हैं वो आप के बाप।।।


अब ज़रा कुंवें से बाहर तो आइए ! 
नज़रें उठाइए !
शर्म और लज्जा यदि  बाक़ी रह गई हो,
तो ज़रा सा लजाइए !
मौक़ा है अब भी सुधर जाइए।
वरना ....!!! आप तो समझदार हैं , समझ जाइए।




۞۞۞
LIKE& SHARE it on Facebook

۞۞۞
Follow me on Facebook
۞۞۞

Sunday, December 1, 2013

ایک خط کا اقتباس

کشن گنج ریلوے اسٹیشن کا ایک خوبصورت  منظر

   غالب !  السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۔ 

 ؏    ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے

     حال چال نہیں پوچھا غالب، ناراض تو نہیں ہوگئے؟  ویسے پوچھ کر تو کوئی فائدہ نہیں ہوگا، حسب معمول تم ویسے ہی ہوگے۔ خیر اب ذرا سا دھیان غالب کو اپنی صحت پر بھی لگانا چاہئے۔ ویسے غالب کا نوابی مزاج اگر ان سب کی اجازت دے تب کوئی بات ہو ۔
     ایاز نے محمود کے لئے ایک بہت ہی کارآمد جملہ "دریافت" کیا تھا کہ :" یہ وقت بھی گذر جائے گا۔" واقعی جب جب یہ جملہ یاد آتا ہے  دل کو سکون ملتا ہے کہ چلو غم کی اس شام  کو کبھی نہ کبھی تو صبح   سے دوچار ہونا ہے۔
کشن گنج دیکھا ، بڑی خوشی  ہوئی اور دل کے کسی گوشے سے  ایک گنگناہٹ  رفتہ رفتہ مجھے چھیڑنے لگی :
 یہ حسرت.رہ.گئی کس کس مزے.سے زندگی کرتے
اگر.ہوتا..چمن..اپنا.،..گل..اپنا.،..باغباں..اپنا

اسی فراق میں کشن گنج آیا تھا، اور ایک پل کے لئے یوں لگنے لگا کہ جیسے اب کچھ ہی عرصے میں یہ حسرت  پوری ہوجائے گی،  لیکن یہ سب کچھ ایک سہانا خواب تھا جو صبح کے ستارے کا منہہ دیکھتے ہی اوجھل ہوگیا.........
.................... ظؔفر ابن ندوی
۞۞۞




۞۞۞
LIKE& SHARE it on Facebook

۞۞۞
Follow me on Facebook
۞۞۞

Saturday, November 30, 2013

لطیفہ گوئی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

    حامداً ومصلیا امابعد!
    رسول اکرم ﷺ کا فرمان ہے
     
      « وَيْلٌ لِلَّذِي يُحَدِّثُ بِالحَدِيثِ لِيُضْحِكَ بِهِ القَوْمَ فَيَكْذِبُ، وَيْلٌ لَهُ وَيْلٌ لَهُ»

حكم الألباني : حسن
        رواہ الترمذي: أبواب الزھد
                          باب: بَابٌ فِيمَنْ تَكَلَّمَ بِكَلِمَةٍ يُضْحِكُ بِهَا النَّاسَ
    مفہوم: بربادی ہے اس شخص کے لئے جو لوگوں کو ہنسانے کے لئے گفتگو کرتا ہے، پھر وہ جھوٹ  بولتا ہے، اس کے لئے بربادی ہے، اس کے لئے بربادی ہے۔


افسوس کی بات ہے کہ ہم دوسروں کی وقتی خوشی کے لئے اپنی عاقبت خراب کررہے ہیں، اکثر احباب فیس بک پر قسم ہا قسم کے لطائف پیش کرتے ہیں، ان سے میں چند سوالات پوچھنا چاہتا ہوں۔

أ. کیا ہمیں پتہ ہے کہ ہم نے جو لطیفہ پیش کیا ہے وہ کوئی سچا واقعہ ہے؟

ب. کیا ہم جانتے ہیں کہ ہمارا پیش کردہ لطیفہ اگر جھوٹا واقعہ ہے تو اسے پڑھ کر جتنے لوگ فیس بک یا کسی اور جگہ پیش کریں گے ان کا گناہ ہمیں بھی ملے گا؟

ج. کیا ہمارے پاس اتنے نیک اعمال ہیں کہ اس عمل سے بروز قیامت ہمیں کوئی فرق نہیں پڑے گا؟

د. یا ہمارے پاس جھوٹے لطائف پیش کرنے کے جواز پر کوئی دلیل ہے؟

آخر کیا وجہ ہے کہ صرف داد وتحسین کے لئے ہم اپنے اعمال کے مسکین جھولے کو خالی کررہے ہیں؟

میرے بھائیو یہ عقل مندی نہیں ہے۔ شاید ان باتوں کو پڑھ کر ہم یہ سوچنے لگیں کہ کیا اب دنیاوی کاروبار چھوڑ کر بالکل صوفی وراہب بن جائیں؟ نہیں میرے دوستو نہ ہی یہ رہبانیت ہے اور نہ ہی صوفیت۔ یہ ہماری آخرت کا معاملہ ہے۔


مزاح کی شرعی حیثیت اور طریقہ:

شریعت اسلامیہ میں خوش کلامی اور ظریفانہ گفتگو جائز اور ممدوح ہے۔ خندہ پیشانی سے پیش آنا اور مسکرانے کو صدقہ قرار دیا گیا ہے۔ اور وقتاً فوقتاً آپ ﷺ بھی مذاق کیا کرتے تھے، لیکن اس کا ایک طریقہ اور اصول ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ اس گفتگو میں جھوٹ اور کذب بیانی نہ ہو، کسی کی بے عزتی نہ ہو، اور لغویات یا فحش کلامی نہ ہو۔

کیا آپ ﷺ نے کبھی مذاق میں " جھوٹ " کا استعمال کیا؟
کیا آپ ﷺ نے کبھی کسی کو بے عزت کرنے کے لئے مذاق کیا؟
 کیا آپ ﷺ نے کبھی مذاقا کوئی لایعنی اور فضول کلام کا استعمال کیا؟

جواب تو یقیناً نفی میں ہی ہوگا
اسی لئے لطیفہ گوئی کی شرعی حد یہی ہے کہ اس میں جھوٹ اور واہیات اور منکرات نہ ہوں، بلکہ حقائق کو ہی اس انداز سے بیان کیا جائے جس سے سامعین مسکرا اٹھیں۔

واللہ اعلم بالصواب


اللہ ہمیں صحیح سمجھ عطاء فرمائے۔ اور ان بے ہودہ اور جھوٹے لطائف سے بچائے۔
والسلام
دعاؤں کا طالب
ظفر ابن ندوی
۞۞۞
۔




۞۞۞
LIKE& SHARE it on Facebook

۞۞۞
Follow me on Facebook
۞۞۞

Wednesday, November 27, 2013

فیس بوکیات !!!

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

امید کہ احباب بخیر ہوں گے۔ 

طویل عرصے کی غیرحاضری کے بعد آج حاضر ہوا ہوں۔ وہ بھی ایک ضروری گفتگو کے ساتھ

آج کل سماجی تعلقات یعنی سوشل نیٹ ورکنگ ایک عام سی بات ہوگئی ہے۔ اور اب تو یہ اتنی عام سی بات ہے کہ ایک ان پڑھ شخص بھی اس سے متأثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ دور حاضر میں شہروں میں رہنے والا ایک عام سا نوجوان اگر یہ کہے کہ اس کا فیس بک اکاؤنٹ نہیں ہے تو شاید لوگ تعجب کریں۔ خیر سے بہت سے پڑھے لکھے احباب صرف اسی خوف سے فیس بک پر کود پڑے ہیں کہ کہیں ان پر دقیانوسیت کا طعنہ نہ پڑ جائے۔ 

لیکن وہیں بہت سے احباب کئی وجوہات کی بنیاد پر اس سے دور رہنا چاہتے ہیں۔ لیکن ان کو اس کنویں سے نکلنے کا کوئی راستہ ہی نہیں نظر آتا۔ اور ایسے ہی احباب کے لئے آج یہ مضمون لکھنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔

عموماً یہ مشہور ہے کہ فیس بک اکاؤنٹ کو مکمل طور پر حذف نہیں کیا جاسکتا ہے۔ لیکن یہ بات درست نہیں ہے۔ بالکل اگر آپ فیس بک سے اس قدر نالاں ہیں کہ اسے حذف کردینا چاہتے ہیں تو اس کا بھی طریقہ ہے۔ 

لیکن مناسب یہ ہے کہ پہلے ان وجوہات پر روشنی ڈالوں جن کی وجہ سے کوئی اکاؤنٹ مکمل طور پر مٹانا چاہتا ہے۔

1۔ ای میل میں کثرت سے فیس بک اطلاعات:

بہت سے احباب اس بات سے پریشان ہوتے ہیں کہ ان کے ای میل پر فیس بک کی ہر نرم و گرم اطلاع موصول ہوتی رہتی ہے۔ اور ان اطلاعات کی تعداد اس قدر ہوتی ہے کہ بسا اوقات بہت ضروری ای میل آدمی کی نظر سے اوجھل ہوجاتے ہیں۔ اور اس سے بچنے کے لئے بہت سے لوگ نیا ای میل بناتے ہیں۔ جب کہ اس مسئلے کا حل موجود ہے۔
نیچے دئے رابطے کو کھولیں:
یہ صفحہ نمودار ہوگا
  
تصویر میں دکھائے ہوئے نقطے پر کلک کریں۔ اب آپ کے ای میل پر فیس بک سے بس پاسورڈ اور اکاؤنٹ کی چند ضروری معلومات کے ای میل ہی موصول ہوں گے۔

2 ۔ پروفائل پر غلط اشیاء کا نشر ہونا:

بہت سے احباب اس بات سے پریشان ہیں کہ فیس بک پر ان کی مرضی کے بغیر ہی بہت ساری چیزیں نشر ہوجاتی ہیں۔
 اس کا بھی حل موجود ہے۔ اس کے لئے آپ کو اپنے پروفائل کی حفاظتی ترتیبات میں تبدیلی کرنی ہوگی۔  اس کے لئے اس لنک پر کلک کریں اور تصویر میں دی گئی ہدایات پر عمل کریں:

3. دوسروں کی طرف سے پریشانیوں کا سامنا:


عموما نئے اور کم عمر احباب فیس بک پر جڑتے ہی نئے نئے دوست بنانا شروع کردیتے ہیں۔ اور سمجھتے ہیں کہ یہ بس ایک تفریح ہے۔ لیکن یہ خیال انتہائی غلط اور بھیانک ہے۔ اس کے کافی نقصانات ہیں۔ بسااوقات ایسے لوگ کبھی بڑی مشکل میں پڑجاتے ہیں۔ اور معاملہ عدالت تک پہونچ جاتا ہے۔ اس لئے میرا مشورہ ہے (اور خود فیس بک کا بھی یہی مشورہ ہے) کہ آپ صرف انہیں لوگوں کو اپنے حلقۂ احباب میں شامل کریں جنہیں آپ بلاواسطہ یا بالواسطہ جانتے ہوں۔ انجان لوگوں کو اور خاص کر غیر محرم اور انجان لڑکیوں کو اپنے حلقۂ احباب میں شامل نہ کریں۔
اگر غلطی سے ایسے اشخاص آپ کے احباب کی فہرست میں شامل ہوچکے ہوں جو آپ کو کسی بھی طریقے سے پریشان کرتے ہوں تو آپ ان کو احباب کی فہرست سے نکال سکتے ہیں۔ اگر پھر بھی کچھ ایسے عناصر ہوں جو آپ کی فہرست سے نکلنے کے باوجود آپ کو پریشان کرتے ہیں تو آپ انہیں بلاک کرسکتے ہیں۔ جس سے یہ ہوگا کہ آپ دونوں ایک دوسرے کی پروفائل کو نہیں دیکھ سکیں گے، اور نہ ہی کسی نشریے (پوسٹ) پر ایک دوسرے کے تبصروں کو دیکھ سکیں گے۔
بلاک کیسے کریں:
جس کسی کو بلاک کرنا ہو آپ اس کے پروفائل پر جائیں اور تصویر کے مطابق عمل کرتے جائیں۔
اس کے بعد تصویر کے مطابق بلاک پر کلک کریں اور کنفرم کرنا نہ بھولیں:

 فیس بک اکاؤنٹ بند کرنا

یہ تین اہم وجوہات ہیں۔ اور بھی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ خیر ان تینوں مسائل کا حل تو آپ کے سامنے ہے۔ اس کے باوجود اگر کسی کو اپنا فیس بک اکاؤنٹ بند کرنا ہو تو اس کے لئے میرا مشورہ ہے کہ آپ عارضی طور پر اپنا اکاؤنٹ بند کریں۔ تاکہ دوبارہ کبھی بھی آپ اپنے احباب سے جڑنا چاہیں تو راہ ہموار رہے۔ عارضی طور پر بند کرنے سے فیس بک پر آپ کا نام دوسروں کی لسٹ سے حذف تو نہیں ہوگا۔ البتہ آپ کے اکاؤنٹ کی چیزیں کوئی بھی نہ دیکھ سکے گا۔اس کے لئے لنک پر کلک کریں اور تصویر میں بتائے گئے طریقے کے مطابق آگے بڑھتے جائیں:

آخر میں کنفرم کرنا نہ بھولیں۔

فیس بک اکاؤنٹ کو مکمل طور پر حذف کرنا

اور اگر کسی وجہ سے آپ کو مکمل طور پر فیس بک اکاؤنٹ بند کرنا ہو تو اس بھی طریقہ موجود ہے۔ لیکن یاد رکھیں کہ اگر ایک بار کسی اکاؤنٹ کو حذف کر دئے ہوں تو دوبارہ کسی بھی صورت اس کی کسی بھی نشریے کو حاصل نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اس لئے اکاؤنٹ کو مکمل طور پر حذف کرنے سے پہلے آپ اس میں موجود ضروری نشریات، تصاویر اور ویڈیو وغیرہ کو محفوظ کرلیں۔ اس کے بعد ہی حذف کریں۔
خیر جب آپ اپنے اکاؤنٹ کو مکمل طور پر حذف کرنا ہی چاہتے ہیں تو آخر میں ہی کیوں گریز کروں۔ لیجئے میں لنک دیے دیتا ہوں

نوٹ: اپنے اکاؤنٹ آپ اپنی ذمہ داری سے حذف کریں۔  مضمون نگار اس سلسلے میں کسی بھی قسم کی ذمہ داری نہیں لے سکتا ہے۔



اب آپ اپنی ذمہ داری سے اپنے اکاؤنٹ کو حذف (Delete) کررہے ہیں۔ Delete My Account پر کلک کرتے ہی ایک پوپ اپ کھلے گا۔ اور نیچے کی تصویر کے مطابق اس میں آپ کو اپنا پاسورڈ اور تصویری حفاظتی کوڈ لکھنا ہوگا۔ پھر اوکے کرتے ہی آپ کا اکاؤنٹ مکمل طور پر حذف ہونے کے لئے نامزد ہوجائے گا۔

اور اگلے 14 دنوں کے اندر اگر آپ نے اپنی درخواست کینسل کردی تب تو آپ کا اکاؤنٹ دوبارہ فعال ہوسکتا ہے۔ بصورت دیگر 14 دنوں بعد آپ کا اکاؤنٹ مکمل طور پر حذف ہوجائے گا۔ جائیے اب آرام فرمائیے، اور خوش رہئے۔

اللہ حافظ
آپ کا بھائی
ظفر ابن ندوی
 ۔



۞۞۞
LIKE& SHARE it on Facebook

۞۞۞
Follow me on Facebook
۞۞۞

Tuesday, October 15, 2013

ना सूत ना कपास, जुलाहों में लट्ठम लट्ठा

 ना सूत ना कपास, जुलाहों में लट्ठम लट्ठा।
इस कहावत को जब सुना था तो कुछ ख़ास समझ नहीं सका था।  परन्तु आज एक बार फिर इस कहावत को सुनने का अवसर मिला।  और तब जाकर इस को समझ पाया।
उन्नाऊ के किसी बाबा ने सपना देखा कि  क़िले  के नीचे 1000 टन सोने का खज़ाना है। सरकार ने उसकी खोज का आदेश भी देदिया है।  और 18 तारीख को खुदाई का काम आरंभ हो जाएगा।  यहाँ तक तो किसी प्रकार ठीक ठाक है।  परन्तु अब उस सोने के कई भागीदार और दावेदार भी उठ गए।  
आरोप और प्रत्यारोप का दौर भी चल निकला है।  हमें कहावत समझना था सो समझ गए।  आगे क्या होगा अल्लाह जाने।

Saturday, October 5, 2013

آنسو دینے والا محبوب یا پونچھنے والا؟؟؟


        اصلاً اس سوال کا جواب بہت مشکل ہے۔پسِ منظر کے مختلف ہو نے سے جواب بھی مختلف ہوسکتاہے۔
         اگر آنسو کا پس ِ منظر ہجر و وصال ہو تو عموماً ہوتا تو یہی ہے کہ جس نے آنسو دئیے ہیں وہ زیادہ محبوب اور دل نشیں ہوتا ہے کہ اس کے فراق میں بے اختیار آنسو چھلک پڑے، پھر آنسو پونچھنے والی شخصیت کا کوئی کرشمہ ہی ہو سکتا ہے جو اسے پہلی شخصیت سے زیادہ محبوب کردے بلکہ یہ تو نوادرات میں سے ہے۔لیکن بدقسمتی سے اگر کسی کی ہم نشینی ہی اشک باری کی وجہ ہو تب معاملہ بالکل برعکس ہواکرتاہے۔اور ایسی بدقسمتی شادی شدہ زندگی ہی میں ہوا کرتی ہے۔
       اور اسی طرح اگر یہ اشک کسی مظلوم کا ہو تب ان قیمتی آنسؤوں کو پونچھنے والے بہت ہی کم ایسے ملتے ہیں جو پرخلوص ہوں ان اہلِ خلوص کو میرا بھی سلام ہو۔
       لیکن آنسو پونچھنے والوں میں کچھ لنگوٹیا یار بھی ہوتے ہیں جو عشق کی تھکن سے چور اپنے دوست کے ’’قیمتی‘‘ عشق کے زخم پر آرام سے نمک چھڑک دیتے ہیں!!! غصہ تو بہت آتاہوگا ان کی اس حرکت پر!!!   لیکن چند ہی دنوں میں یہ احساس ہوجاتا ہوگا کہ:
خو ب ہم بے ضمیر بن  بیٹھے
عشق کے ہم اسیر بن بیٹھے
دل کی قیمت ظفؔر بتا تو سہی
بیچ  کر   دل  فقیر  بن  بیٹھے؟     
       اگر اس کے بعد بھی کوئی یہ سوچھے کہ یہ ہماری بے وقوفی نہیں تھی بلکہ منصوبہ کی کمی تھی اور پھر کسی  نازنین سے منصوبہ بند عشق کا ارادۂ خام رکھے تب اس کو احمق کہنا احمقوں کی توہین ہوگی۔
(اہلِ عشق سے معذرت کے ساتھ)




۞۞۞
LIKE& SHARE it on Facebook

۞۞۞
Follow me on Facebook
۞۞۞

Monday, September 30, 2013

زلف بکھری جو ان کے شانے پر

غزل
۞۞۞



﴿آن لائن طرحی مشاعرے کے لئے لکھی گئی غزل تاخیر کی وجہ سے اس غزل کو شریک مشاعرہ نہ کرسکا۔﴾


زلف بکھری جو ان کے شانے پر
ہوش بھی نہ رہا ٹھکانے پر

میں تو بکھرا تھا مثل سنگریزہ
شوخ نظروں کے تازیانے پر

آرزو تھی کہ ہم بھی گائیں گے
یاں تو بندش ہے گنگنانے پر

ہم نے سوچا تھا عشق کرتے ہیں
آگئی عقل اب ٹھکانے پر








۞۞۞

LIKE& SHARE it on Facebook



۞۞۞
Follow me on Facebook
۞۞۞
آپ کی رائے  جان کر ہمیں خوشی ہوگی 

Tuesday, September 24, 2013

تکنیکی ارتقاء کا نیا باب : Microsoft Surface

ٹیکنالوجی!          آئے دن نئی نئی ٹیکنالوجی کے تعلق سے کوئی نہ کوئی خبر آتی رہتی ہے۔ کمپیوٹر ٹیکنالوجی کی موجد Microsoft  نے نہایت کامیابی کے ساتھ Surface اور Surface Pro پر ایک سال کے تجربے کے بعد اب Surface 2 اورSurface Pro 2 کا اجراء کردیا ہے۔


 


آج Microsoft نے اپنے Surface 2 اور Surface Pro 2 کا اجراء کیا۔

 


       آئیے ذرا ایک مختصر سی ملاقات اس نئی تکنیکی آلے سے کرتے ہیں:

       موبائل اور کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ کے درمیان میں ایک تکنیک Tablet ہے۔ یہ وہ ٹیبلیٹ نہیں ہے جو اطباء مریضوں کو لکھ کر دیتے ہیں۔ جی ہاں یہ ٹیبلیٹ اور ہے جو انتہائی کارآمد اور ضروری ہے۔ ٹیبلیٹ کو دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ موبائل اور کمپیوٹر کا ملغوبہ۔ یعنی لیپ ٹاپ کی طرح بھاری بھرکم بھی نہیں اور موبائل کی طرح محدود بھی نہیں۔ جس میں آپ بہت سے دفتری امور انجام دے سکتے ہیں۔ لیکن بہر حال کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ کی بات ہی کچھ اور ہے۔ اس میں جس آزادی سے آپ دفتری امور انجام دےسکتے ہیں وہ ٹیبلیٹ میں میسر نہیں ہے۔ اور یہ کمی ٹیبلیٹ کی پیدائش کے بعد سے ہی محسوس کی جاتی رہی۔ Surface دراصل اسی کمی کو پورا کرنے کی ایک ابتدائی کوشش تھی۔

        کیوں کہ ٹیبلیٹ میں آپ اپنے من پسند سوفٹ ویئر کو انسٹال نہیں کرسکتے ہیں۔ دراصل ٹیبلیٹ کا آپریٹنگ سسٹم عموماً اینڈرائیڈ ہے۔ ظاہر ہے اینڈرائیڈ میں آپ صرف apk. سوفٹ ویئر ہی استعمال کرسکتے ہیں۔ اور دفتری سوفٹ ویئر Windows آپریٹنگ سسٹم پر انسٹال ہوتے ہیں۔ اسی لئے مائیکروسافٹ نے Surface کا اجراء کیا۔ جس میں ایک لیپ ٹاپ کی طرح آپ Windows 8 پر ٹیبلیٹ استعمال کرسکتے ہیں۔ اور بہت سارے Desktop سوفٹ ویئر انسٹال کرسکتے ہیں۔

         اب آج مائیکروسافٹ نے جس
Surface 2 اور Surface Pro 2 کا اعلان کیا ہے۔ وہ گزشتہ Surface کا ہی ترقی یافتہ نسخہ ہے۔ اس میں پروسیسر بھی تیز ترین ہے جو intel کے Core i-5 پرچلتا ہے۔ اسی طرح اس میں لیپ ٹاپ کی طرح مکمل آزادی ہے۔ کیوں کہ اس کے RAM کی استعداد 4GB ہے۔ بلکہ 8GB RAM کی بھی سہولت ہے۔ کمپیوٹنگ سے واقفیت رکھنے والے بخوبی جانتے ہوں گے کہ 8GB RAM کی استعداد رکھنے والا کمپیوٹر کتنا سریع اور طاقتور ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اس میں مزید قابل ذکر خصوصیت یہ ہے کہ یہ 4th Genration ٹیبلیٹ ہے۔ اور بالکل اعلی قسم کی ویڈیو اور تصویر کشی کے لئے سامنے 3mp پیچھے 5mp کا کیمرا بھی نصب ہے۔ اور سال بھر کے لئے 60 ممالک میں فون کالز بالکل مفت ہیں۔

       4GB RAM میں ہارڈ ڈسک کی استعداد 64GB اور 128GB ہے۔ جب کہ 8GB RAM میں ہارڈ ڈسک ناقابل یقین ہے۔ یعنی 256GB اور 512GB ۔ واقعی ناقابل یقین ہے۔
        ویسے فی الحال یہ برصغیر کے متوسط طبقوں کے لئے ایک خواب کی مانند ہوگا۔ کیوں کہ اس کی قیمتیں بھی کافی زیادہ ہیں۔
Surface 2 کی قیمت 449 امریکی ڈالر ہے۔
اور
Surface Pro 2 کی قیمیت 899 امریکی ڈالر ہے۔

        لیکن شوقین حضرات اپنے دیگر ضروریات اور خواہشوں کو دباکر ایسی چیزوں کو خرید لیتے ہیں۔ بہر حال یہ ایک مہنگا شوق ہی کہلائے گا۔ آگے چل کر شاید اس کی قیمت کچھ کم ہوجائے۔

       خیر مزید دیکھتے جائیں انسان کی ترقیاں

مزید معلومات کے لئے دیکھیں:




۞۞۞
LIKE& SHARE it on Facebook
۞۞۞
Follow me on Facebook
آپ کی رائے جان کر ہمیں خوشی ہوگی

Monday, September 16, 2013

سانچہ



     سانچہ: مطلب تو واضح ہے۔ اس کے ساتھ ڈھالنے کا چولی دامن کا واسطہ ہے ۔ کیوں سانچہ "ڈھالا" ہی جاتا ہے۔ عموماً سانچے میں ڈھالنے کے لئے سیال مادوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن کبھی کبھی ان میں انسان بھی ڈھالے جاتے ہیں۔ بلکہ یہ تو انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ بچپن میں ماں اسے مناسب سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کرتی ہے۔ اور بعد میں اساتذہ۔ اور اس کے بعد اللہ نے خیر کیا تو بیوی!!! اس لئے اب یہ مان لینا چاہئے کہ انسانی افکار اور اخلاق ایک سیال مادہ ہیں۔ جنہیں ایک مناسب سانچے میں ڈھال کر محفوظ کیا جاسکتا ہے۔ اب اگر آپ نہ مانیں تو ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بس یوں ہی خیال میں آیا کہ شاید بول دوں تو دنیا مان لے۔ قسمت آزمائی کرنے میں حرج کیا ہے جناب!!

     ویسے انسانی سانچے مختلف قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک ہوتا ہے فطری سانچہ!! جو سے سب سے عمدہ ہے۔ کیوں کہ یہ سانچہ اس ذات کا تیار کردہ سے جس نے انسان کو بنایا۔ اگر اسی پر انسانی بچوں کو ڈھالا جائے تو کیا کہنے۔ بچہ سلیم الفطرت اور بااخلاق ہوا کرتا ہے۔ لیکن ہمارے معاشرے میں یہ سانچہ اب نایاب ہوگیا ہے۔ ہاں کبھی کبھی سنتے ہیں کہ فلاں مولوی یا ماسٹر جی کے گھر میں وہ سانچہ دستیاب ہے۔ یہ سانچہ ہے تو بہت آسان اور بالکل مفت۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ یہ زیادہ تر غریب مولویوں اور اسکول کے ماسٹروں کے ہاں مل جایا کرتا ہے۔ لیکن مالدار افراد تو مفت یا کم قیمت کی اشیاء کو نقلی تسلیم کرتے ہیں۔ اس لئے وہ بھاری پیسہ دے کر ٹیلیویژن اور انٹرنیٹ سے جو سانچہ خریدتے ہیں کہ بس اللہ ہی رحم کرے۔ اور بعد میں اولاد کی نافرمانی کا گلہ کرتے ہیں۔ وہ ایک کہاوت ہے ناں، "آ بیل مجھے مار"۔ بس یہ مہنگا سانچہ خریدتے وقت اس کہاوت کو ضرور یاد کیجئے گا۔ خریدتے وقت تو سمجھ میں کچھ نہیں آئے گا لیکن ایک مدت بعد جب ان بیلوں سے مار کھانے لگیں گے تو اپنے آپ سمجھ جائیں گے۔

      ایک سانچہ اور بھی ہے۔ یہ صرف بڑوں کے لئے ہے۔ اسے سیاسی سانچہ کہتے ہیں۔ بڑا صبر آزما اور تقریباً بے غیرتی والا سانچہ!!! اس میں خود کو ڈھالنے کے لئے پہلے تو آپ کو اس کردار کے موافق اخلاق وعادات خریدنے ہوں گے۔ اس کے بعد ایک لمبی مدت تک "اعلی رہنماؤں" کی جی حضوری کرنی ہوگی۔ اگر آپ اسے ہضم کرسکیں۔ ویسے اتنا زبردست ہاضمہ بہت کم ہی افراد کو نصیب ہوتا ہے۔ اور پھر ہم دیکھتے ہی رہ جاتے ہیں کہ پوری کی پوری قوم کو یہ لوگ ہضم کرلیتے ہیں، اور وہ بھی بغیر ڈکارے۔ اللہ ان کے ہاضمے کی خبر لے۔


      یوں تو سانچے بہت سے ہوتے ہیں۔ جاتے جاتے ایک خوبصورت سانچے سے آپ کو متعارف کراتا چلوں۔ یہ ہے ادبی سانچہ۔ اللہ بہت کم لوگوں کو یہ خوبصورت ہنر عطا کرتا ہے۔ عام سی بات کو جب ماہر فن ادبی سانچے میں ڈھالتے ہیں تو اجی کیا کہنے!! پھر دل تو گویا بچہ ہے جناب اسی کی طرف لپک پڑتا ہے۔ بڑے بڑے معرکے کبھی کبھی بعض حکیمانہ رسائل یا جملوں سے ٹل جاتے ہیں۔ اور بڑے بڑے معرکے اپ اس سے سر کرسکتے ہیں۔ والدین کا دل جیتنا ہو، اساتذہ سے بات منوانی ہو یا کسی اور بڑی شخصیت سے کچھ منوانا ھو تو الفاظ کو سلیقے سے ادبی سانچوں میں ڈھالتے جائیں۔ آپ کا کام بن سکتا ہے۔ اور تو اور بھئی اپنے 'دل کی بات' کسی سے کہنی ہو تو بس یہ سانچہ تو ایک تیر بہدف نسخہ ہے۔ مخاطب نے سمجھ لیا تب غنیمت ہے اور اگر اس کے پلے کچھ بھی نہ پڑا ہو تب تو اور غنیمت ہے۔
      بعض لوگ اپنی باتیں شعری سانچوں میں ڈھالتے ہیں۔ اور یہ سانچہ اتنا کارگر اور نفع بخش ہے کہ کہنے والا اپنے ان تمام رازوں کو کہہ جاتا ہے جنہیں وہ عام زبان میں ظاہر بھی نہیں کرسکتا۔ ارے ہاں بھئی، وہی عشق وشق کے تمام چکر، آپ شعر میں کہہ ڈالیں، کیا مجال کہ کوئی آپ پر انگلی اٹھائے۔ لیکن یہ سانچہ تو خوش بختوں کوہی نصیب ہوتا ہے۔ خیر سے ہم بھی کبھی کبھی اس سانچے پر طبع آزمائی کرلیتے ہیں۔ اور اول جلول کیا کیا بک جاتے ہیں، اللہ کرے کہ کوئی نہ سمجھے۔ :)




۞۞۞
LIKE& SHARE it on Facebook

۞۞۞
Follow me on Facebook
۞۞۞

Thursday, September 5, 2013

ٹائپنگ کی ترقیاں


    ایک دور تھا جب موبائل فون صرف بات کرنے کے لئے مستعمل تھے۔ پھر موبائل کی دنیا میں اس وقت ایک انقلاب آیا جب موبائل سے پیغام رسانی کا کام لیا جانے لگا۔
  جی ہاں پہلے میسیج لکھنا اور اسے بھیجنا بھی ایک خواب سا لگتا تھا۔ اور آج کا دور ترقی یافتہ دور ہے۔ جہاں کی پیڈ سے اٹھ کر اب لمسی تختہ یا ٹچ اسکرین کا زمانہ آچکا ہے۔ اب کی پیڈ والے موبائل کو دیکھ کر موبائل کا ماضی یاد آتا ہے۔

  خیر ترقیات نے یہیں آکر بس نہیں کیا۔ اب آسانیوں کا ایک اور باب کھل گیا ہے ۔ اب آپ منہ سے بولیں تو سسٹم اسے خود لکھ لیتا ہے۔ بس آپ ایک ایک لفظ بولتے جائیں۔ سسٹم اسے لکھتا جائے گا۔ اگر سسٹم کو کوئی لفظ سمجھ میں نہیں آرہا ہے تو وہاں آپ کو ہاتھ لگانا پڑ سکتا ہے۔ واقعی یہ ایک تعجب خیز اور بہت ہی کار آمد ترقی ہے۔

   لیکن کیا اسی پر بس ہوگیا؟ جی نہیں محترم! یہ ہماری اور اپ کی غلط فہمی ہے۔ اب تو لکھنے اور کاپی کرنے کے میدان میں ایک اور بڑی ترقی ہوئی ہے، اور وہ ہے نقل نویسی۔ یعنی آپ کو اگر لکھی ہوئی چیز دوبارہ لکھنا ہو تو اب پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ کیوں کہ اب آپ اپنے کیمرے والے موبائل کی مدد سے یہ کام بہت آسانی سے کرسکتے ہیں۔ بس آپ لکھی ہوئی عبارت کے سامنے اپنے کیمرے کو آن کریں۔ وہی تحریر آپ کے کیمرے میں کاپی ہوجائے گی۔ اب آپ اس میں حسب ضرورت تبدیلی کریں اور اپنی مرضی کے مطابق چسپاں کردیں۔
   یہ ہیں اب تک کی ترقیاں ۔ آگے آگے دیکھتے جائیں اور کیا ہوتا ہے۔
اللہ ہمیں ان تمام ترقیات کو نیک مقاصد میں استعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین






Saturday, August 17, 2013

مختار احمد ندوی- تنہا ایک امت


مولانا مختار احمد ندوی 1930ء میں ہندوستانی ریاست اُترپردیش کے مشہور شہر مئو کے وشوناتھ پورہ محلہ میں پیدا ہوئے تھے۔
==تعلیم اور خدمات==
مختلف اداروں سے علمی استفادہ کیا۔ خصوصا ہندوستان اور عالم اسلام میں معروف ومشہور ادارہ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ سے تعلیم حاصل کیا۔ بعد ازاں کلکتہ جامع مسجد اہل حدیث میں خطیب ، امام اور مفتی  کی حیثیت سے ایک طویل عرصہ تک فائزرہے۔ اللہ تعالیٰ نے موصوف کو بہت ساری خوبیوں سے نوازا تھا ۔ صحافت وخطابت کے شوقین تھے۔اور اسی ذوق و شوق کی بنا پر ’اخبار اہل حدیث دہلی‘ کی مجلس ادارت سے منسلک ہوئے اور کئی علمی مقالے تحریر فرمائے۔
بمبئی (ممبئی) منتقلی: کلکتہ کے بعد وہ ممبئی تشریف لائے۔ اور سلفی العقیدہ کتب کی نشر واشاعت کے لیے عالم اسلام کے معروف و مشہور ادارہ الدارالسلفیہ  کی بنیاد رکھی۔ اس مکتبہ سے تقریباً تین سو کتابیں شائع کروائیں۔  انہوں نے ممبئی سے ایک ذاتی ماہنامہ البلاغ  جاری کیا ۔ جو صحافت کے میدان میں اپنی مثال آپ ہے۔
موصوف نے تعمیر مساجد کے سلسلے میں ادارہ اصلاح المساجد بنائی۔ الحمد للہ ہندوستان میں کشمیر تا کنیا کماری اور ممبئی تا کولکاتہ مساجد کا جال بچھا دیا۔ ہندوستان کی شاید ہی کوئی ریاست ایسی ہو جہاں ان کی تعمیر کردہ مسجد نہ ہو۔
==مشن==
وہ گرچہ ایک تنہا شخص تھے، لیکن اپنے آپ میں ایک امت کی حیثیت رکھتے تھے۔ پر عزم ، پر خلوص، اور بامقصد شخصیت  جن کے اندر امت کے لئے کچھ کرنے کا جنون تھا۔ اور اسی جنون نے ان کو ایک بہت وسیع منصوبے پر کام کرنے پر ابھارا۔   اور انہوں نے ہندوستان میں ایک ایسی یونیورسٹی تعمیر کرنے کا منصوبہ بنایا جس میں طلباء کو کتاب سنت کی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصر حاضر کے جدید علوم سے بھی مرتبط کیا۔ اور ہندوستان میں ایک ایسے ادارے کی بنیاد ڈالی جو اپنے آپ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ جی ہاں جامعہ محمدیہ منصورہ نامی ادارہ اپنے انوکھے پن میں ہندوستان کا واحد ادارہ تھا۔ جہاں اسلامی تعلیمات کو عصر حاضر کے جدید علوم سے ہم آہنگ کیا گیا تھا۔ اور الحمد للہ 1978 سے یہ ادارہ آج تک کامیابی کی منازل طئے کرتا جارہا ہے۔ 
ہندوستان کی صنعتی ریاست مہاراشٹر کے کثیر مسلم آبادی والے شہر مالیگاؤں میں 1978 میں اس ادارے کی بنیاد ڈالی۔ شیخ تنہا اس میدان میں اترے تو اہل خیر نے بھی ان کا ساتھ دیا۔ اور مالیگاؤں شہر سے متصل ایک وسیع عریض زمین کو اس اسلامی قلعے کے لئے شہر کے مخیر جناب خلیل احمد    فیضی رحمہ اللہ نے    وقف کردیا۔ الحمدللہ یہ سخاوت خلیل احمد فیضی کے فرزندان میں آج بھی موجود ہے۔  اللہ فیضی خاندان کی اس جود وسخا کو قائم و دائم رکھے۔ آمین۔
بعد میں ہندوستان کی مختلف ریاستوں میں اس ادارے کی شاخیں قائم کیں۔ جن میں  ریاست کرناٹک میں جامعہ محمدیہ منصورہ بنگلوراور  ریاست اترپردیش میں جامعہ محمدیہ منصورہ ، مئوناتھ بھنجن مشہور ہیں۔
مالیگاؤں میں    ملک کے  ممتاز یونانی محمدیہ میڈیکل کالج اور ریسرچ سنٹر کی بنیاد ڈالی۔ جو آج طب یونانی میں ہندوستان بھر میں اپنی مثال آپ رکھتا ہے۔
حکومت مہاراشٹر کی تعلیمی بورڈ سے منظور شدہ اسکولیں بھی قائم کیں۔ جن میں قابل ذکر محمدیہ اردو ہائی اسکول منصورہ ، مالیگاؤں ہے۔
تعلیمی اداروں کے سلسلے میں انہوں نے کئی ایسے کارنامے انجام دئے جو ان سے پہلے کسی نے نہیں کیا۔ مثلاً دینی علوم کے ساتھ عصری علوم کا ارتباط یہ آں محترم ہی نے ہموار کیا۔  اور سب سے اہم کام یہ تھا کہ ہزاروں مخالفتوں کے باوجود انہوں نے لڑکیوں کی تعلیم کے لئے گویا علم جہاد بلند کردیا۔ اور مالیگاؤں ہی میں لڑکیوں کے ایک اسلامی کالج ، کلیہ عائشہ صدیقہ منصورہ کا قیام کیا۔ اور اس کامیاب تجربے کے بعد مئو ناتھ بھنجن میں کلیہ فاطمۃ الزہراء ، اور بنگلور میں کلیہ عائشہ الصدیقہ بنگلور کا قیام کیا۔ یہاں سے سینکڑوں لڑکیاں پڑھ کر دنیا کے کونے کونے میں حتٰی کہ یورپ، کینیڈا، امریکہ میں بھی دعوت وتبلیغ کا فریضہ انجام دے رہی ہیں۔ الحمدللہ۔
==ایک ممتاز فکر==
شیخ اس بات سے نالاں تھے کہ برصغیر میں مسلمانوں نے علم کو دوحصوں میں تقسیم کردیا۔ ایک دینی علوم اور دوسرا عصری یا دنیاوی علوم۔ اور یہی تقسیم مسلمانوں کی پستی کا ایک اہم سبب بھی بنا۔ ان کے مطابق علم کی یہ تقسیم بالکل بھی درست نہیں ہے۔ کیوں کہ تمام علوم اللہ کے ہیں۔  سائنس پڑھ کر ایک طالب تخلیق کے بہت سے رموز سے آگاہ ہوتا ہے۔ اسی جغرافیہ سے بھی وہ کائنات کے مختلف حصوں کی بناوٹ پر غور کرتاہے، جو عین اللہ کا ہی حکم ہے۔ اسی طرح تاریخ سے ایک طالب بہت کچھ سیکھتا ہے، اور مستقبل کے لئے لائحۂ عمل بناسکتا ہے۔ اسی طرح انگریزی ودیگر زبان سیکھ کر دعوت اسلام کو دوسروں تک پہونچانے میں بہت بڑی مدد مل سکتی ہے۔
شیخ کے مطابق اگر علم کو تقسیم کریں تو ایک کو علم شرعی کہیں اور دوسرے کو علم تکوینی۔

سن 1992ء میں عالم اسلام کی معروف شخصیت ڈاکٹر عبداللہ عمر نصیف ، رابطہ عالم اسلامی، مکہ مکرمہ کے جنرل سکریٹری کی حیثیت سے تقریباً چالیس اصحاب حل وعقد کے وفد کے ساتھ چارٹرڈ فلائٹ سے جب جامعہ محمدیہ منصورہ مالیگاؤں تشریف لائے اور جامعہ کے معائنہ کیا تو حیران ہوکر فرمایا تھا : دیکھئے شیخ مختار کس قدر نشیط ہیں ملک کے سربراہوں اور سلطانوں کے کرنے کے کام آپ کررہے ہیں ‫!!
====جمعیت اہل حدیث ہندکی خدمت====
آپ 1979ء سے 1989ء تک مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے نائب امیر، پھر 1989ء سے 1990ء تک کار گزار امیر اور 1990ء سے 1997ء تک جماعت کے امیر کے منصب پر فائز رہے، اس دوران ملک میں جماعت کے مورال کو بہت بلند کیا، نیز مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے امیر ہوتے ہوئے مرکزی جمعیت کے مرکز اور اس کے دفاتر کے لیے محسنین کے تعاون سے دہلی میں شاہی جامع مسجد کے قریب ایک بڑی عمارت (جس کی مالیت آج کئی کروڑ میں ہوگی اور جو آج ’اہل حدیث منزل‘ کے نام سے جانی جاتی ہے) خرید کر جماعت کے لیے وقف کیا۔
== تصنیف وتالیف  ==
شیخ موصوف ایک موثر خطیب ہونے کے ساتھ ساتھ بے باک صحافی اور منجھے ہوئے ادیب بھی تھے۔ عربی اور اردو ادب پر آپ کو کمال حاصل تھا۔
سماحۃ الشیخ ابن باز رحمہ اللہ سے آپ کا بہت ہی خاص تعلق تھا۔ شیخ محترم نے مولانا سے اپنی اور دوسرے مشائخ کی کئی کتابوں کا اردو ترجمہ کروایا، انہی کتابوں میں ایک اہم کتاب التحقیق والایضاح لکثیر من مسائل الحج والعمرة والزیارة بھی ہے، حج وعمرہ اور زیارت کے مسائل پر مشتمل مولانا کا ترجمہ کیا ہوا یہ کتابچہ پچھلے کئی سالوں سے برصغیر کے حاجیوں اور معتمرین کو سعودی حکومت بطور ہدیہ  دیتی آرہی ہے۔ اس کے علاوہ آپ کی بہت سی تصنیفات ہیں۔ جن میں اہم کتابوں کے اردو ترجمے، رسائل وکتابچے شامل ہیں۔
==وفات==
توحید کا علم بردار یہ فقید المثال شخصیت 7 ستمبر 2007 کو اس دار فانی سے ابد الآباد زندگی کی طرف رحلت کرگئی۔ إنا للہ وإنا إلیہ راجعون۔ اللہ تعالی اپنے اس توحید پرست دین کے سچے خادم کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے۔ آپ کی جملہ حسنات کو قبول فرمائے اور آپ کی دانستہ وغیر دانستہ جملہ خطاؤں کو درگزر فرمائے۔ آمین ثم آمین۔
==بعد از وفات ==
ان کی وفات کے بعد بھی ان کا مشن جاری و ساری رہا۔ جس کی باگ ڈور شیخ موصوف نے اپنی زندگی ہی میں اپنے چھوٹے فرزند ارشد مختار محمدی کے حوالے کردیا تھا۔  لیکن یہ مشن بیچ میں لڑکھڑانے لگی۔ اور شیخ موصوف کے ذریعے قائم کردہ کئی اداروں کو بند کرنا پڑا۔ جن میں سے مشہور ومعروف ادارہ مکتبہ دارالسلفیہ ہے۔ اس کے علاوہ ممبئی کے مضافات ممبرا میں ایک ٹیکنیکل کالج کو بھی بند کردیا گیا جو ممبرا کے قریب ایک وسیع وعریض علاقے پر مشتمل تھا۔ اور شیخ کے ذریعے قائم کردہ کئی شاخوں کے الحاق کو منصورہ سے ختم کردیا گیا۔ البتہ منصورہ اور اس کی مذکورہ دو شاخیں اب بھی قائم و دائم ہیں۔ اور اللہ سے دعاگو ہوں کہ وہ اسی طرح قائم رہیں۔آمین
ہاں ان کی وفات کے بعد ایک قابل ذکر کارنامہ یہ ہوا ہے کہ منصورہ ، مالیگاؤں کے احاطے میں مولانا موصوف کے نام پر ایک کالج قائم کیا گیا ہے۔

اللہ موصوف کی تمام خدمات کو قبول فرمائے۔ آمین
۞ ۞ ۞ ۞

Wednesday, July 24, 2013

فخر امت


کیا آپ اس عظیم شخصیت کو پہچانتے ہیں؟       دور حاضر کی عظیم ترین شخصیات میں سے ایک ہیں!!!
ان کے بعض کارنامے:

  • افریقہ میں دعوت اسلامی کی 29 سالہ مدت میں ان کے ہاتھوں 11.2 ملین سے زیادہ افراد نے اسلام قبول کیا۔
  •  تقریبا 5700 مساجد تعمیر کروائے۔
  • تقریبا 15000 یتیموں کی کفالت کی۔
  • پینے کے پانی کے لئے تقریبا 9500 کنویں کھدوائے۔ 
  • 860 مدارس بنوائے۔
  •  4 جامعات قائم کئے۔
  •  204 اسلامی مراکز قائم کئے۔
یقین نہیں آتا ہے ناں !!!
جی ہاں یہ عظیم شخص کویت کے  دکتور عبدالرحمن السمیط ہیں۔
اللہ ان کی خدمات کو قبول فرمائے۔ آمین
مزید معلومات کے لئے اس لنک پر جائیں: دکتور عبدالرحمن السميط 
۔

Saturday, July 13, 2013

حرمین کی 20 رکعات تراویح سے استدلال

 
بیس رکعات تراویح میں مکہ کو دلیل بنانے والے کیا مکہ کو دیگر مسائل میں حجت سمجھتے ہیں؟؟؟
 
۱۔ مکہ میں رکوع سے پہلے اور بعد میں رفع الیدین کیا جاتا ہے۔

۲۔ مکہ میں اذان سے قبل و بعد مروجّہ درود نہیں پڑھا جاتا۔
۳۔ مکہ میں تکبیر اکہری کہی جاتی ہے ۔
۴۔ مکہ میں ہر نماز کے بعد اجتماعی دعا نہیں کی جاتی۔
۵۔ مکہ میں نمازیں اوّل وقت میں ادا کی جاتی ہیں۔
۶۔ مکہ میں خانہ کعبہ میں نمازِ جنازہ پڑھے جاتے ہیں، جب کہ ۲۰ پڑھنے والے اس کے منکر ہیں۔
۷۔ مکہ میں نمازِ جنازہ میں ثناء نہیں پڑھی جاتی، لیکن احناف نمازِ جنازہ میں ثناء پڑھتے ہیں۔
۸۔ مکہ میں نمازِ جنازہ میں ایک طرف سلام پھیرا جاتا ہے، لیکن احناف ا س کے منکر ہیں۔
۹۔ مکہ میں جو نمازِ جنازہ پڑھی جاتی اس میں سورۃ فاتحہ پڑھی جاتی ہے، لیکن احناف نمازِ جنازہ میں اس کی مخالفت کرتے ہوئے سورۃ فاتحہ نہیں پڑھتے۔
۱۰۔ مکہ میں نمازِ فجر سے قبل بھی ایک اذان کہی جاتی ہے۔
۱۱۔ مکہ میں نمازِ فجر اندھیرے میں ادا کی جاتی ہے، جب کہ احناف اجالے میں فجر پڑھتے ہیں۔
۱۲۔ مکہ والے ایک رکعت وتر کے قائل ہیں، جب کہ احناف اس کے منکر ہیں۔
۱۳۔ مکہ میں عورتوں کو مساجد میں آنے کی اجازت ہے، جب کہ احناف اپنی عورتوں کو اس سے منع کرتے ہیں۔
۱۴۔ مکہ میں نمازِ عید کےخطبہ سے قبل کوئی وعظ و نصیحت نہیں کی جاتی، لیکن احناف اس کی مخالفت کرتے ہوئے خطبہ عید سے قبل وعظ و نصیحت کرتے ہیں۔ ۱۵۔ مکہ میں نماز عید میں کل بارہ تکبیرات کہی جاتی ہیں، جب کہ احناف صرف چھ تکبیرات پڑھتے ہیں۔
۱۶۔ مکہ میں عیدین میں مرد و عورت جماعت کے ساتھ عیدین پڑھتے ہیں، لیکن احناف عورتوں کو جماعت میں حاضر آنے کی جازت نہیں دیتے۔
۱۷۔ مکہ میں روزہ کی نیّت زبان سے نہیں کی جاتی، جب کہ احناف " وبصوم غد نويت من شهر رمضان " کی خود ساختہ نیّت کرتے ہیں۔
۱۸۔ مکہ میں افطار صحیح وقت پر کیا جاتا ہے، لیکن احناف اس کی مخالفت کرتے ہوئے احتیاطً کچھ منٹ دیر سے افطار کرتے ہیں۔

تراویح میں مخالفت:

۱۹۔ مکہ میں تراویح کے ساتھ تہجد الگ سے نہیں پڑھی جاتی، جب کہ احناف کے نزدیک تراویح اور تہجد الگ الگ پڑھنی چاہیئے۔
۲۰۔ مکہ کی بیس تراویح میں پاوؤں سے پاؤں اور کندھے سے کندھا ملا کر مقتدی کھڑے ہوتے ہیں۔
۲۱۔ مکہ کی بیس تراویح میں امام ہاتھ سینے پر یا کم از کم ناف سے اوپر باندھتے ہیں ناف کے نیچے نہیں۔
۲۲۔ مکہ کی بیس تراویح میں امام کے پیچھے فاتحہ پڑھی جاتی ہے، لیکن احناف اس کے منکر ہیں۔
۲۳۔ مکہ کی بیس رکعت تراویح میں امام اور مقتدی دونوں بلند آواز سے آمین کہتے ہیں۔
۲۴۔ مکہ کی بیس رکعت تراویح میں رفع الیدین کیا جاتا ہے۔
۲۵۔ مکہ کی بیس رکعت تراویح میں وتر فصل کر کے پڑھا جاتا ہے یعنی دو رکعت پڑھ کر امام سلام پھیر دیتا ہے اس کے بعد ایک وتر الگ سے پڑھا جاتا ہے۔ احناف اس کے منکر ہیں۔
۲۶۔ مکہ کی بیس رکعت تراویح میں وترمیں قنوت سے قبل رفع الیدین نہیں کیا جاتا ہے، جب کہ احناف کا اس پر عمل ہے۔
۲۷۔ مکہ کی بیس رکعت تراویح میں قنوت رکوع کے بعد پڑھی جاتی ہے، جب کہ احناف رکوع سے پہلے پڑھتے ہیں۔
۲۸۔ مکہ کی بیس رکعت تراویح میں قنوت میں ہاتھ اٹھا کر دعا کی جاتی ہے، جب کہ احناف کا اس پر عمل نہیں ہے۔
۲۸۔ مکہ کی بیس رکعت تراویح میں قنوتِ نازلہ پڑھی جاتی ہے، جب کہ احناف کا اس پر عمل نہیں۔
۳۰۔ مکہ کی بیس رکعت تراویح میں ایک رات میں قرآن ختم نہیں کیا جاتا ہے، جب کہ احناف شبینہ میں ایک رات میں قرآن ختم کرتے ہیں۔

مکہ کی بیس رکعت تراویح کو حجت سمجھنے والے ان 30 مسائل میں بھی مکہ کی پیروی کیوں نہیں کرتے ؟؟

یاد رہے ہم نے یہاں صرف 30 مسائل نماز سے متعلق نقل کیئے ہیں جن میں احناف اہل مکہ کی مخالفت کرتے ہیں ۔ اس کے علاوہ سینکڑوں مسائل موجود ہیں جن میں احناف کا اہل مکہ سے اختلاف ہے، ہم نے اختصار کے پیشِ نظر ان کا تذکرہ نہیں کيا۔
 
(براردم اے. آر. سالم فریادی کی فیس بک نشریات سے مأخوذ)

Wednesday, July 3, 2013

کاظم کو لکھے گئے ایک جوابی خط کا اقتباس ....

    آداب !!ساتھ ساتھ تسلیمات بھی!!
   کہیں یہ ارمِ فردوس تو نہیں !!! جسے آپ اچھی طرح جانتے  ہیں؟ اگر نہیں تب تو وضاحت مطلوب ہے۔اصل میں آپ کی پیشانی پر لفظِ ارم دیکھ کر مجھے تو کچھ پل کے لئے  بد ہضمی سی ہوگئی۔پھر خیال گذراکہ آخر "دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت درد سے بھر نہ آئے کیوں" اور پھر بحال ہو کر دادا جان کا دل ہی دل میں شکریہ بھی ادا کیا کہ ان کی اس ایجاد نے کم از کم میری ایک پریشانی تو حل کردی۔
   اور ایک شکایت بھی ہے تم سے، یہ آنکھ مچولی کھیلنا کہاں سے سیکھ گئے؟ معلوم نہیں کب چپکے سے آتے ہو اور چلے بھی جاتے ہو۔ خیر سے کبھی ملوگے بھی یا  یوں ہی اپنا جلوہ  دکھاؤگے؟
   میں نے ایک عجیب فون دیکھا ہے!! معلوم ہے؟؟؟ ارے ہاں یا ناں کچھ تو بولوگے؟!!؟  ٹھیک ہے تمھاری مرضی ،ہم تو اپنی بکواس جاری رکھیں گے ۔ہاں تو میں کہہ رہاتھا ایک فون ہےجس میں ایک عجیب بات یہ ہے کہ وہ  انڈے بھی دے سکتا ہے!؟!!کہیں تمھارا فون بھی ایسا ہی تو نہیں ہے؟؟! کبھی اگر انڈے دینے سے فرصت مل جائے  تو اسے کہئے گا کہ ایک بار میرے یہاں آواز لگاجائے۔
والسلام
        ظؔفر ابنِ ندوی

سائبر مجاہدین اور صوفیاء

     
        دور حاضر کے سائبر مجاہدین اور صوفیوں میں چنداں فرق نہیں ہے۔جس طرح اسلام کا چولا پہن کر صوفیاءسادہ لوح مسلمانوں کےایمان  کو برباد کرتے تھے، ٹھیک اسی طرح یہ سائبر جہادی بھی جہاد کا خوب صورت مکھوٹہ لگاکر منافقین کی طرح چھپ چھپاکر بے چارے سیدھے سادھے  مسلمانوں کا ایمان لوٹ رہےہیں۔ان کے اسلاف میں سے بعض صوفیاء نے نبوت کا دعویٰ کر دیا  پھر بھی وہ ان جہادیوں کے نزدیک مسلمان ہو سکتے ہیں !؟!ان جہادیوں نے توصرف  بچوں  کویتیم ہی کیا ہے نا؟؟؟؟
     بعض صوفیاء نے تو (معاذاللہ )الوہیت تک کا دعویٰ  کر دیا پھر بھی وہ   ان جہادیوں کی شریعت میں پکےمؤمن ہو سکتے ہیں !؟!ان جہادیوں نے توصرف بوڑھوں کوقتل ہی کیا ہے نا؟؟؟؟
      بعض صوفیاء نے تو (نعوذباللہ )اللہ اور اس کے رسول  کی طرف زنا کی نسبت تک کردیا (تعالی اللہ عما یصفون)پھر بھی وہ  پکےمؤمن ہو سکتے ہیں !؟! ان جہادیوں نے توصرف غریبوں کا گھرہی اجاڑا ہے نا ؟؟؟؟
      بعض صوفیاء نے تو (نعوذباللہ ) اغلام بازی ،زناکاری اور فحاشی جیسے کبائر کو جائز  کہنے پر ہی بس نہیں کیا بلکہ  ان پر عمل بھی کر کے دکھایا!!؟؟ اس کے باوجود اگر وہ  اولیاء اللہ ہو سکتے ہیں !؟! ان جہادیوں نے توصرف بے قصور عورتوں کوبیوہ ہی کیا ہے نا؟؟؟؟
      اگر ان مجاہدین کی لغت میں اسلام ،ایمان اور ولایت کا یہی مفہوم ہے تو مبارک ہو ان کو ان کا یہ اسلام!!!ہم تو ایسے ایمان اور ولایت سے پناہ مانگتے ہیں۔
      منافقین  ہر دور میں اسلام کے خلاف اپنی ناپاک سازشوں سے اسلام کو نقصان پہچانے کی ناکام کوششیں کرتے رہیں گے،   لیکن....................
       طریقہ کار مختلف ، مکھوٹے نئے نئے، مقاصد یکساں.....

                       دعاؤں کا طالب
                       ظفؔر ابن ندوی

من ذكری ميبايور

إلى الأخ الفاضل الأستاذ شيخ أشرف علي (نائب رئیس الكلية )

   في حیاتي .............
جاء كثير من الأصدقاء
.............
عِشتُ معهم مُدۃً
............. وعاشوا معي ............. والآن أعيش مع ذكراهم
 وفي حیاتي .............
جاء كثير من ناصري
.............
أحبّوني وأحببتُهم ..... وفكَّروا في أمري ..... ونصروني .....
والآن لا أستطيع النصر لهم إلا بالدعاء.
و
في حیاتي .............
جاء كثير من الأساتذة .............
علموني بحبٍّ وإخلاص ..... وارشدوني ..... والآن أعيش بدعائهم ..... وهم أيضاً في قلبي ودعائي.

و
في حیاتي .............
 جاء كثير من الوقائع والحوادث .............
وقعت فی حياتي فانقلبتها وغیَّرتها ..... حاولتُ كثيراً أن أنساها

..... ولكن ..... كأني أراها كلَّها.

وأنت يا صديقي ..... من أصدقائي ، عشتُ معك مدّۃً ..... ولكن بعد قليل أنت ستكون في ذكراي!!!
وأنت من ناصري ..... أحببتني وفكّرتَ في أمري ..... ونصرتني متى احتجتُ ..... ولكنّني أنا الفقير  لا أستطيع لك إلا بالدعاء!!!
وأنت كأستاذي ..... علمتني كثيراً مالم أعلم، وارشدتني ..... ولكن الآن أنت في قلبي ودعائي!!!
وهٰذه القرية
............. میبایور!!!
كالحوادث ..... جئتُ إلیها وسكنت فيها ..... وقعت فيها واقعة ..... التي انقلبت في حياتي وغيرتها ..... حاولت أن أنساها ..... ولكن ظننت بأني لا أستطيع أن أنساها أبداً.


ظفر ابن ندوی
09-09-09 م