Thursday, August 25, 2011

انّا جی آگے بڑھو !!!!۔

اب یہ بات واضح ہورہی ہے کہ صرف کانگریس ہی نہیں جتنی سیاسی پارٹیاں ہیں سب کو یہ غم گھلائے جارہا ہے کہ اگر ’’ہزارے جی کا لوک پال‘‘ آگیا تو ہماری سیاست کا کیا ہوگا؟ اس دکان کو تو اب بند سمجھنا چاہئے!!!!اب تو گویا ہر کوئی اپنا محاسبہ کررہا ہے۔ اور اپنی اپنی راگ الاپ رہا ہے۔ 

حکومت کی پالیسی کافی حد تک مایوس کن ہے۔ ہزارے کے طریقے سے بھلے ہی لوگوں کو اعتراض ہو لیکن ان کے تقریبا تمام ہی مطالبات بجا ہیں۔دورحاضر میں امید کی یہی ایک کرن ہے۔ کیوں کہ ہم علماء کے لئے تو سیاست گویا شجر ِ ممنوعہ ہے۔ جسے نہ تو ہم خود استعمال کرنا چاہتے ہیں، اورنہ ہی کسی دوسرے کو استعمال کرنے دینا چاہتے ہیں۔ پھر مسلمانوں کی طرف سے اس قسم کی کسی تحریک کی امید بھی نہیں کی جاسکتی ہے۔ جب قوم کے رہنما  ہی نیند کی آغوش میں ہوتے ہیں، اور اٹھنا بھی نہیں چاہتے ہیں ا،  ایسی صورت میں تو  بے چاری عوام کے پاس یہی ایک راستہ بچتا ہےکہ  راہ  زنوں کے پیچھے ہی چل پڑیں۔  پتہ نہیں اس دیوانے راہ زن کا کیا حشر ہوگا؟؟؟؟ 
اللہ ان رشوت خور غداروں سے اس ملک کو بچائے۔ جنھوں نے ملک وقوم کی دولت کو بے تحاشہ لوٹا ہے۔  
میں واضح کردوں کہ میں بھی کرپشن مخالف ہوں، اور  جو  اس کا  مخالف  نہ ہو میری نظر میں اس کے دل میں بھی کوئی چور ہے،  یا  وہ  خود کرپٹ  اورضمیر  کا  دشمن ہے۔ اور میں  اناہزارے کی بہت حد تک تائید کرتا ہوں۔ اس کے باوجود چندباتوں میں مجھے ان سے اختلاف ہے۔

۞۞۞
LIKE& SHARE it on Facebook
۞۞۞
Follow me on Facebook
آپ کی رائے جان کر ہمیں خوشی ہوگی

Sunday, August 21, 2011

آخری عشرہ

آخری عشرہ
 آخری عشرے کی آمد آمدہے۔ اکثر شہروں میں ایک الگ ہی رونق ہے۔ بعض شہروں  میں عید کی خریداری کا بازار اب لگنے کو ہے۔اکثر مساجد میں ان پانچ طاق راتوں کو پرسوز خطاب کے لئے علماء بھی پہونچ چکے ہیں۔ ان سب مصروفیات کے جھمیلوں میں ہم یہی بھول جاتے ہیں کہ ہمیں کیا کرنا چاہئے؟
ظاہر ہے کہ صبح فجر سے ظہر تک سونا ہے۔ ظہر سے عصر تک فیس بک میں مصروف  رہنا ہے۔ عصر کے بعد مارکیٹ جانا ہے۔ ارے مغرب بعد تو تھوڑا سا ہی وقت ملتا ہے اس میں کیا عبادت ہوگی۔ عشاء کے بعد تو تراویح ہے۔ اور تراویح کے بعد کھانا ہے۔ کھانے کے بعد عالم صاحب ڈیڑھ گھنٹے کا بیان دیتے ہیں۔ کیا زبردست بیان ہے میاں!!! آپ آتے ہیں یا نہیں؟ اور پھر بیان کے بعد چائے اور ناشتے کا انتظام کرنا ہوتا ہے۔ اب اتنے کام سے تو ہر کوئی تھک جائےگا ناں بھائی؟  اس لئے امام صاحب کے کمرے میں یا پھر کسی کونے میں بیٹھ کر ذرا سستا لیتا ہوں۔ویسے بھی تین بج چکے ہوتے ہیں۔ یہ لیں دس منٹ ہی سستایا تھا کہ وتر کا اعلان۔
ارے میرے بھائی آپ نے اتنا سب کچھ تو کیا لیکن اس مبارک اور نایاب عشرے میں اپنے لئے کیا کیا؟  اپنے لئے اللہ  سے کیا مانگا؟ اپنے ماں باپ کے لئے اللہ سے کیا مانگا؟ اپنے گناہوں کی طرف کبھی نظر نہیں دوڑائی؟ خیر اللہ آپ کی مصروفیات میں کمی فرمائے۔
میری گذارش ہے کہ ہوسکے تو ذرا وقت نکال کر تنہائی میں اللہ کے حضور گڑگڑائیے۔ اپنے گناہوں کامحاسبہ کیجئے۔ اپنی اور اپنے  دوست و احباب کی مغفرت کی دعا کیجئے۔اور خصوصاً اپنی ان قیمتی دعاؤں میں اپنے علمی مسکن منصورہ کی زبوں حالی پر اللہ سے مدد طلب کیجئے۔ کیا خبر کہ اللہ کس کی دعا کو قبول کرلے۔
أللّٰھُــــــمَّ وَلِّ عَلَیْنَا خِیَارَنَا۔ أللّٰھُــــــمَّ وَلِّ عَلَیْنَا خِیَارَنَا ۔ أللّٰھُــــــمَّ وَلِّ عَلَیْنَا خِیَارَنَا ۔ وَاكْفِنَا وَاصْرِفْ عَنَّا شَرَّ أشْرَارِنَا۔ أللّٰھُــــــــمَّ اجْعَلْ وِلَايَتِنَا فِيَمَنْ خَافَكَ وَاتَّقَاكَ وَاتَّبَعَ رِضَاكَ يَا رَبَّ الْعَالَمِيْن۔ آمین۔

۞۞۞

LIKE& SHARE it on Facebook



۞۞۞
Follow me on Facebook
آپ کی رائے جان کر ہمیں خوشی ہوگی


Monday, August 15, 2011

کیا ہم آزاد نہیں ہیں؟؟؟


ہر طرف سے یہ شور ہے کہ  ‘‘کیا ہم آزاد ہیں؟؟؟’’
میں کہتا ہوں.................

جی ہاں ... ہم آزاد ہیں!!!
اللہ کی اس نعمت کی ناشکری نہ کریں!!!۔
·      کیا آج ہماری مسجدوں پر بحالت نماز کوئی مسلمان حملہ آور  حملہ کرتا ہے؟
·      کیا لال مسجد کی طرح یہاں بھی کسی غازی کو شہید کیا جاتا  ہے؟
·      کیا یہاں بھی کوئی مسلم بھائی ڈاکٹر عافیہ کی طرح اپنی بہن کو دشمن کے سپرد کرتاہے؟
·      کیا یہاں بھی ایسا ہے  کہ گولی چلانے والا کہہ رہاہو ‘‘لاإلٰہ الا اللہ’’ اور گولی کھاکر مرنے والے کے منہہ سے بھی ایک دل خراش چیخ نکلتی ہے ‘‘لاإلٰہ الا اللہ ’’؟

ہاں ہم بالکل آزاد ہیں۔لیکن معنوی قید کے ذمہ دار ہم خود ہیں۔ہم نے یہ سمجھ لیا کہ حکومت میں ہماری نمائندگی کا قرض مولانا ابوالکلام آزاد نے چکادیا ہے۔ بس اب ہمیں صدیوں تک آرام فرماناہے۔


·      کیا ہم سوچتے ہیں  کہ کہ کوئی ہندو،   سکھ یا  عیسائی مسیحا  بن کر آئے گا؟  اور قوم کے زخم پر مرہم لگائے گا؟؟!!!!۔
·      کیا ہم نے یہ سوچ لیا ہے  کہ مذھب کے نام پر ہمارا  اعتماد  لوٹنے  والے یہ سیاسی لیڈر ہمارے بلکتے ہوئے نونہالوں کے لئے وقت کے فاروق ہوں گے؟
·      ہم نے شاید یہ سمجھ لیا ہے کہ آج کا  ‘‘ انّا ھـــــــــــــــزارے ’’ ہی ہمارے لئے خضر بن کر آگیا ہے۔
رام دیو اور بال کرشن کو  ہم اپنا مسیحا سمجھنے لگے ہیں۔

آخر کیوں نہ سمجھیں؟؟!!!؟قوم کے نمائندے تو خوابِ خرگوش میں ہیں!!!قوم کے نمائندے قوم کا نہیں بلکہ اپنا مستقبل سنوارنے کے فراق میں ہیں۔
یہ کہیں کہ قوم آزاد ہے لیکن قوم کے رہبر ہی غلامی کی قید میں ہیں۔ایسے بھی رہبر  ہوئے ہیں کہ کل کیا کھائیں گے اس کا پتہ نہیں ہواکرتا تھا۔ لیکن آج کے رہبر اتنے دوراندیش ہیں کہ صدیوں کے بعد  ان کی سات پیڑھیاں کیا کھائیں گی اس کا بھی بندوبست ہوچکا ہے
خیر اب صرف انتظار ہے کہ کوئی غیبی مدد آجاوے۔

۞۞۞
LIKE& SHARE it on Facebook
۞۞۞
Follow me on Facebook
آپ کی رائے جان کر ہمیں خوشی ہوگی