Friday, December 28, 2018

وہ ناپے ہے زخموں کی گہرائیاں کیوں

0 تبصرے
غزل

ستاتی ہیں ظالم یہ پروائیاں کیوں
مجھے کاٹ کھاتی ہیں تنہائیاں کیوں 

بپا ہوگا پھر کوئی طوفان شاید
وہ لینے لگے ہیں یوں انگڑائیاں کیوں

خیالوں میں خوابوں میں جو بس چکے تھے
اب ان کی ہی چبھتی ہیں پرچھائیاں کیوں

وہ دیکھے مرا ظرف اگر دیکھنا ہے
وہ ناپے ہے زخموں کی گہرائیاں کیوں

یہ آنکھیں  تو کچھ اور ہی کہہ رہی ہیں
چھپاتے ہیں مجھ سے وہ سچائیاں کیوں

انہیں آئنہ تو دکھایا نہیں ہے؟
کہ پھیکی پڑیں ساری رعنائیاں کیوں

ظفر اپنے ایمان کی بھی خبر لو
ہر اک موڑ پر اتنی  رسوائیاں کیوں

0 تبصرے: