شیر شاہ آبادی انٹلیکچوئیل گروپ کے طرحی مشاعرے میں پیش کی گئی غزل
ایک دن یہ فخر تیرا مرتبہ لے جائے گا
تجھ سے تیرے دوستوں کا دائرہ لے جائے گا
اس کی محفل میں نہ جانا وہ بڑا بے ذوق ہے
وہ تری ہر حس ترا ہر ذائقہ لے جائے گا
مت ملانا اس کی نظروں سے کبھی اپنی نظر
اک نظر میں تیرے دل کا جائزہ لے جائے گا
تو سناتا ہے جسے اپنا سمجھ کر ہر غزل
ہر غزل کا وہ ردیف و قافیہ لے جائے گا
ٹھوکروں سے لے سبق اے شیر شہ آبادی سن
سمتِ منزل تجھ کو تیرا تجربہ لے جائے گا
دوریاں اپنوں سے تیری نا فنا کردیں تجھے
تجھ کو دلدل میں ترا یہ فاصلہ لے جائے گا
اب دیارِ غیر کو میں بھی کہوں گا خیر باد
مجھ کو اونچائی تلک یہ فیصلہ لے جائے گا
پست ہمت ہے وہ خود کیا مشورہ دے گا مجھے
وہ مشیرِ کار میرا حوصلہ لے جائے گا
سنت و قرآن ہی بس ہے صراطِ مستقیم
بابِ جنت تک یہی اک راستہ لے جائے گا
راستے دشوار ہیں پھر بھی ظفؔر چلتا ہی جا
منزلوں تک پیر کا یہ آبلہ لے جائے گا
0 تبصرے:
Post a Comment