عزت اللہ کی دی ہوئی ایک نعمت ہے! جو دیگر نعمتوں کی طرح ہی ہے۔ اگر اس کی ناقدری ہوئی تو یہ کسی بھی لمحے چھن سکتی ہے!
اس لئےعقل مندوں کے مطابق اگر عزت ملی ہو تو اسے اپنی جاگیر سمجھ کر کسی کو کم تر سمجھنا سب سے بڑی حماقت ہے۔ اور اس سے بڑی حماقت یہ ہے کہ وہ سمجھے کہ ایک کم تر شخص اس کے رتبے کو نہیں پہونچ سکتا ہے!
بعضوں میں یہ غلط فہمی بھی پائی جاتی ہے کہ تعلیم کے اعلی مراتب عزت کے ضامن ہیں۔ ایسی عزت پانے سے تو ہم رہے! کیوں کہ اس کے لئے ہمیں افلاطون بننا پڑے گا۔ اب اتنی ٹیڑھی کھیر ہمارے بس کا روگ نہیں ہے!
پھر سوچتا ہوں کہ کئی بار گاؤں کا ایک ماسٹر یا مولوی عزت کا جو مقام پالیتا ہے وہ ایک پروفیسر یا انجینئر بھی نہیں حاصل کرپاتا ہے۔ تو امید سے رہنے میں برائی کیا ہے؟!
یوں تو ہر کوئی سمجھتا ہے کہ میں معزز ہوں! کوئی اپنی تحریر کی مقبولیت کو اپنی عزت کی معراج سمجھتا ہے، کوئی اپنی صلاحیت کو! لیکن بڑے بزرگ کہہ گئے ہیں کہ عزت حسن اخلاق سے ہوتی ہے! عزت فرد کے برتاؤ کی بہ دولت ہوتی ہے۔ اب بزرگوں کے قول زریں سے اختلاف کرون اتنا بڑا جگر نہیں ہوا ہے۔ اس لئے سرجھکا کر اسی کو ماننا پڑتا ہے۔
ہمارے محلے کے ڈاکٹر صاحب ایک دن ہم پر عزت جمانے لگے! اررے ہاں، مطلب عزت کا دھونس جمانے لگے! اور ہم کو سکھانے لگے کہ عزت کیسے کی جاتی ہے۔ ہم سوچنے لگے کہ عزت مآب کو آخر بھیک میں عزت کیسے دیں! خیر وہ تو دفع ہوگئے لیکن یہ نکتہ ذہن میں جم گیا کہ بھیک یا رشوت والی عزت ہم ہضم نہیں کرپائیں گے۔ بس اسی روز سے وَتُعِزُّ مَن تَشَاء وَتُذِلُّ مَن تَشَاء کا ورد کئے جاتے ہیں! اس مید سے کہ ایک نہ ایک دن تو دعا قبول ہوگی! پھر ہم بھی معزز کہلائیں گے!
ظفؔر شیر شاہ آبادی
ظفؔر شیر شاہ آبادی
۞۞۞
LIKE↓& SHARE↓ it on Facebook
۞۞۞
Follow↓ me on Facebook
آپ کی رائے جان کر ہمیں خوشی ہوگی
0 تبصرے:
Post a Comment