دور
حاضر میں نت نئے مسائل جنم لے رہے ہیں، لیکن اس دور کا سب سے عظیم اور گمبھیر مسئلہ
دہشت گردی ہے۔ آئے دن کہیں نہ کہیں سے خود کش حملہ آوروں کی کسی کارستانی کی خبر ملتی
رہتی ہے۔ اور افسوس تو یہ ہے کہ جانے انجانے میں کافروں کے علاوہ خود مسلمان بھی ان
میں ملوث نظر آتے ہیں۔
کچھ
موقع پرست اور مطلب پرست افراد سادہ لوح مسلمانوں کی ذہن سازی کرکے انہیں ایسے قبیح
جرم پر آمادہ کرتے ہیں، اور ان بے چارے کے دماغ کو اس قدر مختل کردیتے ہیں کہ وہ اس
گھناؤنے جرم کو عین نیکی کا کام سمجھنے لگتے ہیں۔
وہیں
مشرکین اور اہل کتاب کی بہت ساری خفیہ تنظیمیں کرایے پر اپنے چنندہ افراد کی منظم تربیت
کرتے ہیں۔ اور نفاق کے ہر گُر سکھا کر ظاہری طور پر انہیں مسلمان بنا کر اس قسم کی
واردات کو انجام دیتے ہیں۔ اور اسلام کو بدنام کرنے کے لئے دہشت گردی کے واردات کی
ذمہ داریاں قبول کر لیتے ہیں۔ اور میڈیا انہیں ہاتھوں ہاتھ لیتا ہے۔ بلکہ حقیقت تو
یہ ہے کہ میڈیا کا سارا عملہ انہیں کی ملکیت ہے۔ اس لئے انہیں یہ پیغام عام کرنے میں
کوئی دشواری نہیں ہوتی ہے۔ وطن عزیز ہندوستان میں بے شمار ایسے واقعات ہیں جن میں غلطی
سے یہ بات سامنے آگئی کہ کسی حادثے میں ہندو شدت پسند تنظیم کا ہاتھ ہے۔ کچھ میڈیا
والے اسے کچھ لمحے کے لئے نشر تو کردیتے ہیں، لیکن پھر وہ ٹھنڈے بستے میں چلا جاتا
ہے۔
اس میں
علماء اسلام کی ایک بھیانک غلطی بھی ذمہ دار ہے۔ اور وہ ہے میڈیا سے دوری۔ ایک عرصے تک ہم نے میڈیا کو شجر ممنوعہ کے طور پر
جانا، اور اس کے خلاف فتاوے صادر کئے۔ اور جمعہ کے خطبوں سے لے کر جلسوں اور کانفرنسوں
تک ہم اس بات کو عام کرنے کی کوشش میں لگے رہے کہ یہ جہنم کا راستہ ہے۔ اور جب تک غلطی
کا احساس ہوتا کافی دیر ہوچکی تھی۔ اور ہم قوم کو اس دوڑ میں سب سے پیچھے لا چکے تھے۔
دنیا
کی تقریبا ہر ایجاد کے ساتھ نفع و نقصان جڑا ہوا ہے۔ اسی لئے عموما یہ جملہ مشہور ہے
کہ سائنس رحمت بھی ہے اور زحمت بھی۔ اور میں اس کلیہ سے مکمل اتفاق رکھتا ہوں۔ وہ تو شکر ہے کہ ہم نے موبائل کی ایجاد کے وقت اس
کے خلاف فتوی صادر نہیں کیا۔ ورنہ شاید اب منظر کچھ اور برا ہوتا۔ خیر ایک عرصے سے عرب ممالک میں علماء میڈیا کا استعمال
کررہے ہیں۔ اور الحمد لله برصغیر میں بھی کچھ عرصے سے یہ سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ یہ
الگ بات ہے کہ سب اپنے اپنے مسلک کو پھیلانے میں لگے ہیں۔
یہ بتانے
کی چنداں ضرورت نہیں ہے کہ اسلام میں دہشت گردی کے متعلق کیا احکام ہیں۔ بس مختصراً
یہی کہوں گا کہ اسلام کا مطلب ہی امن ہے، وہ تو دشمنوں کی سازش اور اپنی کچھ خامیاں
ہیں جس کی وجہ سے ہمیں بار بار یہ بتانا پڑتا ہے کہ اسلام دہشت گردی کے بارے میں کیا
کہتا ہے!
دنیا
میں دہشت گردی کے بڑھتے واقعات کے پیش نظر دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے 34 اسلامی ممالک
نے سعودی عرب کی قیادت میں ایک فوجی اتحاد تشکیل دینے کا اعلان کیا ہے۔ اس مشن کا واحد
مقصد دہشت گردی کو بڑھاوا دینے والے تمام ذرائع کا خاتمہ اور امن کی بحالی ہے۔ یہ ایک
ایسا فیصلہ ہے جسے بہت پہلے ہی انجام دینا چاہئے تھا۔ خیر، دیر آید درست آید!
اس مشن میں شامل ممالک:
1. سعودی عرب
2. متحدہ عرب امارات
3. مصر
4. یمن
5. قطر
6. کویت
7. بحرین
8. فلسطین
9. لبنان
10. لیبیا
11. سوڈان
12. ترکی
13. تیونس
14.اردن
15. پاکستان
16. بنگلہ دیش
17. ملیشیا
18. صومالیہ
19. موریتانیہ
20. چاڈ
21. ٹوگو
22. بینن
23. سینگال
24. گینی
25. گبون
26. مراکش
27. مالی
28. مالدیپ
29. نائجر
30. نائجیریا
31. کیمروز
32. جبوتی
33. سیرالیون
34. ساحل العاج( آئیوری کوسٹ)۔
اس فہرست
میں ایران شامل نہیں ہے۔ کیوں کہ ایران اور خلیجی ممالک اپنے مختلف مفاد کو لے کر ایک
دوسرے کے حریف ہیں۔ اور خلیج میں بدامنی اور دہشت گردی کے زیادہ تر واقعات میں بالواسطہ
ایران کا ہاتھ ہے۔ الحمد لله یہ ایک مثبت اقدام ہے۔ ایران تو خود دہشت گردی پھیلا رہا
ہے۔ اس لئے اگر اس کا نام اس فہرست میں ہوتا تو یہ اتحاد ایک مذاق بن جاتا۔
اللہ اس اتحاد کو کامیاب کرے، اور دشمنان اسلام
کو غارت کرے۔ آمین۔
۞۞۞
LIKE↓& SHARE↓ it on Facebook
۞۞۞
Follow↓ me on Facebook
آپ کی رائے جان کر ہمیں خوشی ہوگی
0 تبصرے:
Post a Comment