Friday, November 14, 2014

شارٹ کٹ

انسانی طبیعت عموما اختصار اور آسانی کی متلاشی ہے۔ اور انسان فطری طور پر جلد باز ہوتا ہے۔ اسی لئے رب نے اسے عجول کہا ہے۔ اور یہ عجلت شاید ہی کسی صورت میں ممدوح  قرار پائے۔  لیکن ہماری اس ٹیکینکل جنریشن کے اندر یہ عجلت تو کچھ زیادہ ہی مقدار میں ہے۔ ہر کام میں شارٹ کٹ تو اس نسل کے نوعمروں کا شوق بن چکا ہے۔ اور نوبت تو یہاں تک آن پہونچی ہے کہ نفع و نقصان کی پرواہ کئے بغیر شارٹ کٹ کی طرف ہی لپکتے ہیں۔  پھر اہل بازار کہاں پیچھے رہنے والے؟ خریداروں کی آرزو کی تکمیل کا ہر سامان دکان میں سجائے ہوئے ہیں۔ کہیں گرتے بالوں کا شارٹ کٹ علاج بک رہاہے، تو کہیں  موٹاپے سے نجات کا۔  اسی طرح نوابوں کی سی طاقت، مردانگی، خوبصورتی، وغیرہ کے لئے بھی شارٹ کٹ بہت ہی اعلی داموں میں موجود  ہیں۔ یہ تو علاج کے شارٹ  کٹس تھے۔  کروڑ پتی بننے کا شارٹ کٹ، تعلیمی ڈگریوں کا شارٹ کٹ وغیر وغیرہ بس مارکیٹ تو جائیں۔ پھر اپنے من کا شارٹ کٹ خرید لیں۔
اس قسم کے شارٹ کٹ کا ذکر ہو اور  پیر، فقیر، بابا اور عاملوں کا ذکر نہ ہو تو مضمون ہی ادھورا ہے۔ جی ہاں، ان باباؤں کے پاس تو ہر قسم کا شارٹ کٹ  مل جائے گا۔  کسی حسینہ سے محبت کرنی ہو، کسی کا رشتہ توڑنا ہو، مالدار ہونا ہو، اولاد کی ضرورت ہو، کسی لاعلاج مرض کا علاج کروانا ہو، نوکری ، چھوکری، شادی ، کسی کی بربادی، غرض یہ کہ آپ جو چاہیں یہ بابا کبھی آپ کو واپس نہیں کریں گے۔ بلکہ گرج دار آواز میں فرمائیں گے ” بچہ، تم  سہی جگہ پہ آیا ہے!“ اب ان کے شارٹ کٹس پر عمل کرتے رہیں، اور دین و دنیا دونوں لٹاتے رہیں۔
مختصرا ً یہ کہ آپ جتنے بھی شارٹ کٹ دیکھ لیں، فطری طریقہ اور 'لانگ روٹ ' کے مقابلے میں یہ رِسکی اور پر خطر ہوتا ہے۔ اور اس میں کچھ کمی یا نقص ہونا یقینی ہے۔ اسے کلیہ مان کر آپ لوگوں کی توجہ ایک اور شارٹ کٹ کی طرف لے جانا چاہتا ہوں۔ اسے میں تو بدعتی شارٹ کٹ کہتا ہوں۔ آپ چاہیں تو کچھ اور نام سے تعبیر کرسکتے ہیں۔
فیس بک پر گشت کرتے ہوئے کسی دوست کے ایک نشریے  پر نظر پڑی۔  ایک محترم کا تبصرہ دیکھا، جو صرفM.A.  لکھ کر مختصر ہوگئے تھے۔ کسی بھی  زاویے سے نشریہ اور تبصرے میں کوئی ربط نہیں تھا۔ پھر جب دیگر تبصروں کو دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ ڈگری والا  ایم اے نہیں بلکہ ماشاء اللہ کا شارٹ کٹ ہے۔ میرا دل کراہ اٹھا، کہ آج مسلم نوجوانوں میں اس قدر غفلت اور سستی چھاگئی ہے  کہ اللہ کے نام  کا بھی شارٹ کٹ استعمال کرنے لگے!
اسی طرح ایک روز ایک ”مختصر“ صاحب نے فیس بک میں گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے صرفAss  لکھا۔ میں حیران رہ گیا کہ آخر یہ کون سی بے ہودگی ہے۔  انگریزی میں اس لفظ کے اچھے معانی نہیں ہیں۔ بہر حال محترم کی مراد تو سمجھ چکا تھا کہ عجلت پسند جنریشن کے اس ترقی یافتہ ”گائے“ (Guy)  کے پاس السلام علیکم لکھنے کی فرصت نہیں ہے۔  اس لئے گدھاگیری کرتے ہوئے Ass لکھ دیا۔ :)  :)  
میرے خیال سے دعائیہ کلمات کا اختصار ایک بڑی محرومی ہے۔ گوکہ میں مفتی نہیں ہوں لیکن اس قسم کے حرکات کو بدعت ہی گردانتا ہوں۔دراصل یہ مغرب کی نقالی کا جنون ہے ۔ ورنہ سنجیدگی سے سوچنے پر خود  احساس ہوجاتا ہے کہ دعائیہ کلمات کا شارٹ کٹ کس قدر سنگین اور خطرناک غفلت ہے۔
فرمان نبوی ﷺ کے مطابق ” السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته“ کہنے پر 30 نیکیاں ہیں۔ آپ ہی فیصلہ کریں کہ اس جگہ  “A/S”، “A/W”   یا  “S/W” کہنے یا لکھنے پر نیکی  ملے گی یا بدعت  کا گناہ؟
ایسے تمام احباب و افراد سے معذرت کے ساتھ گذارش ہے کہ یقیناً آپ بڑے عدیم الفرصت انسان ہوں گے، لیکن آپ سلام علیکم، الحمد للہ، ماشاء اللہ، سبحان اللہ اور ان جیسے دیگر دعائیہ کلمات کا شارٹ کٹ بناکر ان کلمات کا مذاق نہ بنائیں۔ یہ صرف آپ کے ذہن کا وسوسہ ہے ورنہ صرف اس ایک کلمہ کے لکھنے سے آپ کی کوئی ٹرین نہیں چھوٹنے والی۔ ارے بھئی آپ خواہ مخواہ گناہ اپنے سر کیوں لینا چاہ رہے ہیں؟
اللہ ہمیں عقل سلیم عطا کرے، اور ایسے تمام طریقوں اور عادات سے محفوظ رکھے  جو اسے ناپسند ہوں۔ آمین۔
ظفر شیر شاہ آبادی
10 اپریل 2013ء
۞۞۞ 


۞۞۞

LIKE& SHARE it on Facebook



Follow me on Facebook
۞۞۞
آپ کی رائے  جان کر ہمیں خوشی ہوگی