سانچہ: مطلب تو واضح ہے۔ اس کے ساتھ ڈھالنے کا چولی دامن کا واسطہ ہے ۔ کیوں سانچہ "ڈھالا" ہی جاتا ہے۔ عموماً سانچے میں ڈھالنے کے لئے سیال مادوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن کبھی کبھی ان میں انسان بھی ڈھالے جاتے ہیں۔ بلکہ یہ تو انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ بچپن میں ماں اسے مناسب سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کرتی ہے۔ اور بعد میں اساتذہ۔ اور اس کے بعد اللہ نے خیر کیا تو بیوی!!! اس لئے اب یہ مان لینا چاہئے کہ انسانی افکار اور اخلاق ایک سیال مادہ ہیں۔ جنہیں ایک مناسب سانچے میں ڈھال کر محفوظ کیا جاسکتا ہے۔ اب اگر آپ نہ مانیں تو ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بس یوں ہی خیال میں آیا کہ شاید بول دوں تو دنیا مان لے۔ قسمت آزمائی کرنے میں حرج کیا ہے جناب!!
ویسے انسانی سانچے مختلف قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک ہوتا ہے فطری سانچہ!! جو سے سب سے عمدہ ہے۔ کیوں کہ یہ سانچہ اس ذات کا تیار کردہ سے جس نے انسان کو بنایا۔ اگر اسی پر انسانی بچوں کو ڈھالا جائے تو کیا کہنے۔ بچہ سلیم الفطرت اور بااخلاق ہوا کرتا ہے۔ لیکن ہمارے معاشرے میں یہ سانچہ اب نایاب ہوگیا ہے۔ ہاں کبھی کبھی سنتے ہیں کہ فلاں مولوی یا ماسٹر جی کے گھر میں وہ سانچہ دستیاب ہے۔ یہ سانچہ ہے تو بہت آسان اور بالکل مفت۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ یہ زیادہ تر غریب مولویوں اور اسکول کے ماسٹروں کے ہاں مل جایا کرتا ہے۔ لیکن مالدار افراد تو مفت یا کم قیمت کی اشیاء کو نقلی تسلیم کرتے ہیں۔ اس لئے وہ بھاری پیسہ دے کر ٹیلیویژن اور انٹرنیٹ سے جو سانچہ خریدتے ہیں کہ بس اللہ ہی رحم کرے۔ اور بعد میں اولاد کی نافرمانی کا گلہ کرتے ہیں۔ وہ ایک کہاوت ہے ناں، "آ بیل مجھے مار"۔ بس یہ مہنگا سانچہ خریدتے وقت اس کہاوت کو ضرور یاد کیجئے گا۔ خریدتے وقت تو سمجھ میں کچھ نہیں آئے گا لیکن ایک مدت بعد جب ان بیلوں سے مار کھانے لگیں گے تو اپنے آپ سمجھ جائیں گے۔
ایک سانچہ اور بھی ہے۔ یہ صرف بڑوں کے لئے ہے۔ اسے سیاسی سانچہ کہتے ہیں۔ بڑا صبر آزما اور تقریباً بے غیرتی والا سانچہ!!! اس میں خود کو ڈھالنے کے لئے پہلے تو آپ کو اس کردار کے موافق اخلاق وعادات خریدنے ہوں گے۔ اس کے بعد ایک لمبی مدت تک "اعلی رہنماؤں" کی جی حضوری کرنی ہوگی۔ اگر آپ اسے ہضم کرسکیں۔ ویسے اتنا زبردست ہاضمہ بہت کم ہی افراد کو نصیب ہوتا ہے۔ اور پھر ہم دیکھتے ہی رہ جاتے ہیں کہ پوری کی پوری قوم کو یہ لوگ ہضم کرلیتے ہیں، اور وہ بھی بغیر ڈکارے۔ اللہ ان کے ہاضمے کی خبر لے۔
یوں تو سانچے بہت سے ہوتے ہیں۔ جاتے جاتے ایک خوبصورت سانچے سے آپ کو متعارف کراتا چلوں۔ یہ ہے ادبی سانچہ۔ اللہ بہت کم لوگوں کو یہ خوبصورت ہنر عطا کرتا ہے۔ عام سی بات کو جب ماہر فن ادبی سانچے میں ڈھالتے ہیں تو اجی کیا کہنے!! پھر دل تو گویا بچہ ہے جناب اسی کی طرف لپک پڑتا ہے۔ بڑے بڑے معرکے کبھی کبھی بعض حکیمانہ رسائل یا جملوں سے ٹل جاتے ہیں۔ اور بڑے بڑے معرکے اپ اس سے سر کرسکتے ہیں۔ والدین کا دل جیتنا ہو، اساتذہ سے بات منوانی ہو یا کسی اور بڑی شخصیت سے کچھ منوانا ھو تو الفاظ کو سلیقے سے ادبی سانچوں میں ڈھالتے جائیں۔ آپ کا کام بن سکتا ہے۔ اور تو اور بھئی اپنے 'دل کی بات' کسی سے کہنی ہو تو بس یہ سانچہ تو ایک تیر بہدف نسخہ ہے۔ مخاطب نے سمجھ لیا تب غنیمت ہے اور اگر اس کے پلے کچھ بھی نہ پڑا ہو تب تو اور غنیمت ہے۔
بعض لوگ اپنی باتیں شعری سانچوں میں ڈھالتے ہیں۔ اور یہ سانچہ اتنا کارگر اور نفع بخش ہے کہ کہنے والا اپنے ان تمام رازوں کو کہہ جاتا ہے جنہیں وہ عام زبان میں ظاہر بھی نہیں کرسکتا۔ ارے ہاں بھئی، وہی عشق وشق کے تمام چکر، آپ شعر میں کہہ ڈالیں، کیا مجال کہ کوئی آپ پر انگلی اٹھائے۔ لیکن یہ سانچہ تو خوش بختوں کوہی نصیب ہوتا ہے۔ خیر سے ہم بھی کبھی کبھی اس سانچے پر طبع آزمائی کرلیتے ہیں۔ اور اول جلول کیا کیا بک جاتے ہیں، اللہ کرے کہ کوئی نہ سمجھے۔ :)
۞۞۞
LIKE↓& SHARE↓ it on Facebook
۞۞۞
Follow↓ me on Facebook
۞۞۞