انسان بھی ایک مخلوق ہے، ایک عجیب و غریب مخلوق ۔ ایک اور مخلوق ہے جسے بندر کہتے ہیں۔ ان دونوں میں گویا چولی دامن کا ساتھ ہے۔بچپن سے اب تک یہ ربط مسلسل دیکھتا آرہا ہوں۔بچپن کی شرارتوں پر کوئی کہتا "بندر کہیں کے" تو تعجب ہوتا۔ پھر جب اسکول گئے تو وہی بندر!! اب کی بار تو ان کو ہمارا جدِّ اَمجد بتایا گیا تب جا کر اس معمے کا حل نکلا کہ آخر "بندر کہیں کے" کیوں کہا جاتا ہے۔ پھر مسجد جانے کا شعور ہوا تو وہاں بھی وہی بندر!!! یہاں علم کے کوزے میں ایک نیا اضافہ ہوا۔ وہ یہ کہ "جب کوئی شرارت کرتا ہے تو اللہ اسے سزا کے طور پر بندر بنا دیتے ہیں۔" پھر ذہن الجھ گیا!!! ہماری شرارت پر تو ماسٹر صاحب ہمیں "مرغا" بناتے ہیں!! تب شاید بڑی شرارتیں کرنے پر بندر بناتے ہوں گے!!!
خیر عمر بڑھتی گئی ، اور مختلف خیالات آتے اور جاتے رہے۔ لیکن ان بندروں نے پیچھا نہیں چھوڑا۔ اور اب مجھے یقین ہوچلا ہے کہ پہلے انسان بندر تھا یا نہیں لیکن اب تو ضرور ہے۔ کیوں کہ آج کےترقی یافتہ نوجوانوں میں اور بندروں میں کوئی امتیاز ایک مشکل امر ہے۔ انداز، اخلاق، طرز زندگی، بالکل یکساں۔ بس ایک فرق ہے لباس کا۔ شاید کسی زمانے میں وہ بھی اتر جائے۔ پھر تو بندر اپنے پیغمبر ' ڈارون" کے احسان کو کبھی نہ بھول پائیں گے۔اور اپنے اسکولوں میں ایک سبق ضرور رکھیں گے " پہلے بندر انسان ہوا کرتے تھے "
۞۞۞
LIKE↓& SHARE↓ it on Facebook
۞۞۞
Follow↓ me on Facebook
آپ کی رائے جان کر ہمیں خوشی ہوگی