سب کچھ دیکھیں کچھ نہ کہیں ہم اس کے لئے تیار نہیں
”ناظم صاحب! میں ایک نومسلم عورت ہوں۔ میں چاہتی ہوں کہ میرے بچے ایک اہل حدیث ادارے میں پڑھیں۔ لیکن میرے قبول ِاسلام سے ناراض ہوکر شوہر نے طلاق دے دیا، کوئی ذریعۂ معاش نہیں۔مجھے اپنی فکر نہیں ہے میں کسی طرح گھر گھر جاکر کچھ کام کرکے اپنا پیٹ پال لوں گی،آپ بس ان بچوں کی ذمہ داری لے لیجئے۔“
ہرسال کی طرح یہ بھی ایک نیا سال تھا۔ داخلے زور وشور سے جاری تھے۔اور لوگ اپنے فیس کے معاملات کے لئے ادارے کے ناظم کا رخ کررہے تھے۔اور بدقسمتی سے میں بھی وہاں موجود تھا۔
”محترمہ ! اگر آپ کے بچوں کی فیس معاف کردوں تو آپ کے پیچھے اور دس لوگوں کی قطار لگ جائے گی فیس معاف کروانے کے لئے ! اور بھی مدارس ہیں۔ آپ ان میں کوشش کیجئے۔“
میرا دل تڑپ کر رہ گیا۔ میں نے اسی وقت یہ فیصلہ کیا کہ چاہے کچھ بھی ہو اس بے یار ومدد گار کو یوں ہی نہیں چھوڑا جاسکتا۔کسی طرح بھی ہو میں اس کی کفالت کی ذمہ داری لے لوں گا۔ورنہ کل قیامت کو اللہ مجھ سے پوچھ لے تو کیا جواب دوں گا؟ میں وہاں سے اس عورت کو تلاشتا ہوا باہر نکلا تو کہیں نظر نہ آئی۔ میرے نکلنے تک بہ مشکل دو منٹ کا وقفہ ہوا ہوگا، لیکن وہ کہیں نظر نہ آئی۔ بھاگتا ہوا گیٹ کا رخ کیا۔ دربانوں نے کہا کہ کافی دیر سے نہ کوئی عورت اندر آئی ہے اور نہ باہر گئی ہے۔
یہ جواب سن کر میں لرز گیا کہ کہیں اللہ کی طرف سے کوئی آزمائش تو نہیں ہے یہ؟؟اللہ تو مجھے معاف کردینا۔
یہ تھے ہمارے ایک نہایت ہی معزز ترین استاذ کے الفاظ!!!
جن ساتھیوں کو ان محترم استاذ کایہ واقعہ معلوم ہے ، ان سے گذارش ہے کہ ان کا نام نہ ظاہر کریں۔
شکریہ
ظؔفر ابن ندوی
۞۞۞
LIKE↓& SHARE↓ it on Facebook
Follow↓ me on Facebook
۞۞۞
آپ کی رائے جان کر ہمیں خوشی ہوگی