ابتدائی تعلیم:مشہور زمانہ ادارہ دارالعلوم ندوۃ العلماء کی ایک معروف شاخ مدرسہ فلاح المسلمین، امین نگر، تیندوا، رائے بریلی یوپی۔ اس
ادارے میں میرا بچپن گذرا،ابتدائی دوجماعتیں ہی پڑھ سکا تھا کہ حضرت
مولانا مختار احمد ندوی رحمہ اللہ اور والد محترم کے بعض شاگردوں کے اصرار
پر والد صاحب ہند وبیرون ہند میں مشہور ادارہ الجامعۃ المحمدیۃ منصورہ
تشریف لے آئے۔اور 1993ء کو منصورہ سے وابستہ ہوگئے۔اور اس طرح مجھے بھی اس
عظیم درس گاہ میں حصول علم کا موقع مل گیا۔
1994ء
کے اواخر میں جامعہ میں اعدادی ثانی میں داخلہ ہوا۔ اس جماعت کے اساتذہ
میں سے مولانا صدیق صاحب، مولانا عبدالباری کلیم صاحب، ماسٹر سلیم ابن
افضال علی صاحب قابل ذکر ہیں۔ اس سال میرے ہم جماعتوں میں سے محمد ابن دکتور فضل الرحمن، اور فخرالاسلام بن علاءالدین (بنگال) عبدالصمد (بھیونڈی) عبدالرؤف وغیرہ۔
ایک سال بعد1995ء میں والدین کی آرزو کے مطابق شعبہ حفظ میں داخلہ ہوا۔یہ حفظ کا دور بھی بڑا یاد گار دور ہے۔ بدقسمتی
یہ رہی کہ ان ایام میں کافی بیمار رہا کرتاتھا۔ اس لئے تقریباً چار سال کا
عرصہ حفظ ہی میں گذارا۔ اس طویل عرصے میں بہت سے ساتھی ہوئے جن میں سے کچھ
لوگوں کا نام بھی یاد نہ رہا۔ بہت سارے ساتھی ہیں جی کرتا ہے کہ جتنے
ساتھیوں کا نام یاد ہے لکھ دوں۔ لیکن طوالت کی وجہ سے نہیں لکھ سکتا بہر
حال جن سے میں کسی بھی طرح متأثر ہوا ان میں سے بعض اہم دوستوں کے نام درج
کرتا ہوں:
فیض
الرحمن ظفیرالدین(بھیونڈی)، محمد الیاس، موسی وصدیق ابنان ابراہیم کاکا
(سامرودی)، سلطان سیف الاسلام(مالیگاؤں)، سعود اور سعیدابنان موسی
مدنی(بنگال)، حافظ عرفان (دھولیہ)، رمضان(طارق عزیز عبدالکریم) ،
عبدالرحمن ابن شیخ اقبال المدنی، اسامہ بن شیخ ادریس السلفی، سعود الفیصل
عبدالقدوس مدنی، عتیق الرحمن عبدالرحمن(ممبئی)، حافظ عمر اقبال (جیتانہ) ،
یونس اسماعیل (کریم نگر)، عبدالوہاب حافظ محمود(گجرات) وغیرہ۔
حفظ
کی تلخ یادوں میں اساتذہ کا مارنا یاد ہے، اور یہی میری بدنصیبی کا سبب
بھی ہے۔ مار کھانے کی وجہ سے حفظ سے ہی نفرت ہوگئی تھی، بس خانہ پری کرتا
تھا ، اور یہی وجہ ہے کہ آج تک میرا قرآن کا حافظہ بہت کمزور ہے۔
خیر 1999ء
میں جامعہ کے عربی اول میں داخلہ لیا۔لیکن بعض وجوہات کی بنا پر ششماہی
امتحان تک ہی پڑھ سکا اور پھر چھ مہینوں کے لئے حفظ میں چلاگیا۔
پھر2000ء
میں عالمیت کارخ کیا، میرے بعض مشفق اساتذہ جو مجھےعربی اول میں پڑھاچکے
تھے، ان کا خیال تھا کہ میں عربی اول کی بجائے عربی ثانی میں داخلہ لوں ۔
لیکن کئی اساتذہ نے اس کی مخالفت کی حالاں کہ اس وقت تک انھوں نے مجھے
پڑھایا نہیں تھا۔خیر معاملہ ناظم ِمحترم اکرم مختار صاحب کے پاس گیا۔ اور
انھوں نے انٹرویو کی شرط پر اجازت دے دی۔ الحمدللہ امتحان میں پاس ہوا اور
عربی ثانی میں داخلہ ہوگیا۔
عربی
ثانی سے سادس تک کے پانچ سال بھی میری زندگی کا ایک نا قابل فراموش دور
ہے۔ کتنے لوگ آئے اور کتنوں نے بیچ میں ہی ساتھ چھوڑ دیا۔ ثالث میں تھا
اسی سال جامعہ میں مہمان خانہ جلنے کا حادثہ رونما ہوا۔ مہمان خانہ تو
آباد ہوگیا لیکن ہمارے جلے ہوئے دل آج بھی اس زخم کو مندمل نہ کرسکے۔ کتنے
بے قصور ساتھیوں کو نکال دیا گیا۔ بعض کا جرم تو صرف یہ تھا کہ وہ سیدھے
سادھے تھے کچھ بول نہ سکتے تھے۔ خیر اس واقعے نے کئی دوستوں سے ہم کو جدا
کردیا۔ عرفان خان عثمان خان اور عتیق الرحمن عبدالرحمن جیسے دلچسپ ساتھیوں
کو اسی حادثے نے چھین لیا۔
اگلے
سال یعنی رابع میں کئی نئے ساتھی آئے۔ جن میں عمار سعید اختر اور صفی
الرحمن قابل ذکر ہیں۔ صفی الرحمن کو ہم لوگ متَن کے نام سے جانتے تھے۔ یہ
کوئی برا وصف نہیں تھا، بلکہ اس سال والد محترم قطرالندی پڑھاتے تھے ، کلاس
میں آکر متن پڑھنے کہتے تو یہی محترم پیش پیش رہتے ، جس کی بنیاد پر ان کو
متن کہا جانے لگا۔ یہ نام میرے خیال سے صرف ہماری جماعت تک محدود تھا۔ یہ
ساتھی بھی کافی یاد گار رہے۔ بہت با اخلاق باصلاحیت تھے ۔ وہ آئندہ سال
یعنی خامس میں نہ رہے۔
رابع
کی جماعت میں افضال علیگ سر (اللہ ان کو اپنی امان میں رکھے۔ اور انہیں
جنت الفردوس عطا فرمائے) ہمیں اردو پڑھاتے تھے۔ انہوں نے ہی ہمیں اردو فہمی
اور تحقیق کا مادہ دیا۔ ان کے اردو لیکچر سے متأثر ہوکر میں ، عبدالرزاق
عازم سولاپوری اور سلمان سعید الڈے کوکنی نے ایک عجیب شغل اپنایا۔ تینوں
نے ایک چھوٹی سی ڈائری اپنے اپنے پاس رکھی، کام یہ تھا کہ بہتر سے بہتر
شعر کو اس ڈائری میں لکھیں۔ ہررووز عشاء کے بعد بیٹھتے اور ایک دوسرے کو
اپنے منتخب اشعار دکھاتے۔ اس سال کافی اشعار جمع ہوئے تھے۔ اتفاق سے
ایک مرتبہ سولاپور گیا ہواتھا۔ عبدالرزاق کے اصرار پر بھی میں نے وہ ڈائری
اسے نہیں دی ، لیکن اسی سفر میں وہ ڈائری کہیں غائب ہوگئی۔ اور بہت ساری
یادوں کوبھی اپنے ساتھ لے گئی۔
خامس
کے ابتدائی ایام تھے۔ دو نئے طلباء کا داخلہ ہواتھا۔ ایک عجیب طالب
تھا ۔ نہ کسی سے بات چیت نہ کوئی تعلق۔ اکیلا اکیلا سا بیٹھا رہتا تھا۔
اسے دیکھ کر اس سے بات کرنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی کہ شاید برہم ہو جائے۔
اللہ اللہ کرکے اس سے معلومات حاصل کی۔ نام شمس الرحمن کاظم بتایا۔ میرے
رویے سے وہ مطمئن نظر آیا ۔اور اسی دن سے اس کے ساتھ ایک ایسا تعلق ہوا کہ
اب تک قائم ہے۔
اور
خامس کا دوسرا ساتھی کافی یادگار رہا، وقتی طور پر کچھ رنجشیں رہیں،
عبدالنور نثار پاٹنکر جامعہ کے ماحول سے جلدی ہم آہنگ نہیں ہوپائے۔ کچھ
نادانیاں ان سے بھی ہوگئیں جن کے نتیجے میں وقتاً فوقتاً محترم کو کلاس کی
مخالفت کا سامنا رہا۔
سادس
تک کے تعلیمی سفر میں جو چند ایسے ساتھی تھے کہ جن کے تذکرے کے بغیر میری
یہ کہانی ادھوری رہے گی۔ ان میں سے سر فہرست قمرالزماں عبدالقادر، جو اول
سے ہی ساتھ رہا۔ والی بال کے میدان سے لے کر کلاس تک اس سے تھوڑی نوک
جھونک جاری رہتی تھی۔ انداز کافی نرالاتھا۔ اسی کے رفیق غار کی حیثیت سے
شبیر احمد بابو میاں سولاپوری بھی تھے ۔ شبیر بھائی تو حفظ سے میرے ساتھی
تھے۔ سلمان اقبال بڑا عجیب شخص۔ اللہ اسے جہاں بھی رکھے خوش رکھے آمین۔
اچانک ہمارے بیچ سے غائب ہوگیا۔ خاموش خاموش سا رہنے والا ہم لوگوں کو اور
والی بال کے میدان کو بھی کچھ مدت کے لئے خاموش کرگیا۔
۞۞۞
LIKE↓& SHARE↓ it on Facebook
۞۞۞
Follow↓ me on Facebook
آپ کی رائے جان کر ہمیں خوشی ہوگی