کچھ عرصے سے فیس بک پر جمعیت اہل حدیث کے ذمہ داران اور ان کےمخالفین کے ما بین ایک جنگ کا سا ماحول بنا ہوا ہے۔ جنہیں دیکھ کر بہت افسوس ہوتا تھا، بلکہ اب بھی ہوتا ہے، کہ جن معاملات کو پوشیدہ رہنا تھا اور آپس میں ہی حل کرلینا چاہئے تھا ان معاملات کو سر بازار اچھالا جارہا ہے۔ روز ایک نئی تحریر یا نیا نشریہ فیس بک میں دیکھنے کی عادت سی بن گئی تھی۔ میرا معمول تھا کہ ان کو سرسری نظروں سے دیکھ لیتا تھا۔ نہ تو ان پر کسی قسم کا تبصرہ کرتا ، نہ ہی انہیں شائع کرتا اور نہ پسندیدگی درج کرتا۔ ہاں ابتداء میں میں اس کی مخالفت ضرور کیا کرتا تھا، لیکن بعد میں خاموشی میں ہی عافیت نظر آئی۔
آج اچانک ایک نشریہ پڑھا، اور اس شجرممنوعہ کی طرف میرا نفس بڑھتا چلا گیا، اور
میں اس نشریے پر ثبت تبصروں کو پڑھنے لگا تو افسوس اور تعجب سے میرا منہ کھلا کا کھلا
رہ گیا۔ واللہ، علماء کی جماعت میں خود کو شمار کروانے والے حضرات فریق مخالف کی ماں
بہنوں کو فحش ترین گالیاں دیتے نظر آئے۔ وہ
گالیاں کہ آوارہ گرد بھی جن کو سر عام استعمال کرنے سے کتراتے ہیں۔اور پھر میں نے اپنے
نفس کا شکریہ ادا کیا کہ شجر ممنوعہ سمجھ کر میں جس سے بھاگتا تھا، آج جب اس کے قریب گیا تو مجھے اپنا نظریہ ہی بدلنا
پڑ گیا۔ شرعی اور اخلاقی پیمانوں پر جب میں فریقین کا موازنہ کرتا ہوں تو مجبورا ً
یہی کہنا پڑتا ہے کہ جو فریق اپنی برأت کے لئے گالیوں کا سہارا لے حق بہر حال ان کے
ساتھ نہیں ہو سکتا ہے۔ اور پھر فضیلۃ الأستاذ شیخ جلال الدين قاسمی حفظہ اللہ کی ایک
بات بے ساختہ ذہن پر گردش کرنے لگی۔ "گالیوں کا استعمال مطلب، دلائل کے خاتمے
کا اعلان" اللہ ہمیں حق کہنے اور اس پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
۞۞۞
LIKE↓& SHARE↓ it on Facebook
۞۞۞
Follow↓ me on Facebook
آپ کی رائے جان کر ہمیں خوشی ہوگی