ہر طرف سے یہ شور ہے کہ ‘‘کیا ہم آزاد ہیں؟؟؟’’
میں کہتا ہوں.................
جی ہاں ... ہم آزاد ہیں!!!
اللہ کی اس نعمت کی ناشکری نہ کریں!!!۔
· کیا آج ہماری مسجدوں پر بحالت نماز کوئی مسلمان حملہ آور حملہ کرتا ہے؟
· کیا لال مسجد کی طرح یہاں بھی کسی غازی کو شہید کیا جاتا ہے؟
· کیا یہاں بھی کوئی مسلم بھائی ڈاکٹر عافیہ کی طرح اپنی بہن کو دشمن کے سپرد کرتاہے؟
· کیا یہاں بھی ایسا ہے کہ گولی چلانے والا کہہ رہاہو ‘‘لاإلٰہ الا اللہ’’ اور گولی کھاکر مرنے والے کے منہہ سے بھی ایک دل خراش چیخ نکلتی ہے ‘‘لاإلٰہ الا اللہ ’’؟
ہاں
ہم بالکل آزاد ہیں۔لیکن معنوی قید کے ذمہ دار ہم خود ہیں۔ہم نے یہ سمجھ
لیا کہ حکومت میں ہماری نمائندگی کا قرض مولانا ابوالکلام آزاد نے چکادیا
ہے۔ بس اب ہمیں صدیوں تک آرام فرماناہے۔
· کیا ہم سوچتے ہیں کہ کہ کوئی ہندو، سکھ یا عیسائی مسیحا بن کر آئے گا؟ اور قوم کے زخم پر مرہم لگائے گا؟؟!!!!۔
· کیا
ہم نے یہ سوچ لیا ہے کہ مذھب کے نام پر ہمارا اعتماد لوٹنے والے یہ
سیاسی لیڈر ہمارے بلکتے ہوئے نونہالوں کے لئے وقت کے فاروق ہوں گے؟
· ہم نے شاید یہ سمجھ لیا ہے کہ آج کا ‘‘ انّا ھـــــــــــــــزارے ’’ ہی ہمارے لئے خضر بن کر آگیا ہے۔
رام دیو اور بال کرشن کو ہم اپنا مسیحا سمجھنے لگے ہیں۔
آخر کیوں نہ سمجھیں؟؟!!!؟قوم کے نمائندے تو خوابِ خرگوش میں ہیں!!!قوم کے نمائندے قوم کا نہیں بلکہ اپنا مستقبل سنوارنے کے فراق میں ہیں۔
یہ
کہیں کہ قوم آزاد ہے لیکن قوم کے رہبر ہی غلامی کی قید میں ہیں۔ایسے بھی
رہبر ہوئے ہیں کہ کل کیا کھائیں گے اس کا پتہ نہیں ہواکرتا تھا۔ لیکن آج
کے رہبر اتنے دوراندیش ہیں کہ صدیوں کے بعد ان کی سات پیڑھیاں کیا کھائیں
گی اس کا بھی بندوبست ہوچکا ہے
خیر اب صرف انتظار ہے کہ کوئی غیبی مدد آجاوے۔
خیر اب صرف انتظار ہے کہ کوئی غیبی مدد آجاوے۔
۞۞۞
LIKE↓& SHARE↓ it on Facebook
۞۞۞
Follow↓ me on Facebook
آپ کی رائے جان کر ہمیں خوشی ہوگی