Wednesday, July 20, 2011

پندرہ شعبان کی بدعات



         إن الحمد للہ والصلوۃ والسلام علیٰ رسول اللہ۔ أمابعد ۔فإن خیر الحدیث کتاب اللہ وخیر الھدی ھدی محمد صلی اللہ علیہ وسلم وشرالأمور محدثاتھا وکل محدثۃ بدعۃ وکل بدعۃ ضلالۃ
 اللہ نے ہمیں جس عظیم مقصد کے لئے پیدا کیا ہے وہ   ہے اللہ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے طریقے پر ایک اللہ کی عبادت  ۔ یہاں ایک اصول ذہن نشین کرلیں کہ اسلام نے جن اوقات اور جن صفات کے ساتھ عبادتوں کا حکم دیا ہے ان کے علاوہ کسی مخصوص صفت یا مخصوص وقت میں  کوئی بھی مخصوص عبادت حرام اور ناجائز ہے، چاہے اسے کتنے ہی خلوص کے ساتھ کیوں نہ انجام دیا جائے ۔ایسی عبادتیں کرنے والا ثواب سے محروم اور عذاب کا حقدار ہوگا۔
اس اصول کوسمجھنے کے لئے ایک عام سی مثال ہی کافی ہوگی کہ اگر کوئی شخص فجر میں 2 کی جگہ 4 رکعت پڑھنا چاہے، یا  ظہر کی نماز کو  زوال سے  پہلے ہی پڑھ لے تو کیا ایسے شخص کی نماز ہوگی؟؟  ہرگز نہیں  ۔بلکہ ایسا شخص گنہ گار ہوگا۔کیوں کہ  اس سے  یہی لازم آتا ہے کہ یا تو شریعت ناقص ہے نعوذباللہ یا پھر یہ اپنے آپ میں رسول ﷺ سے زیادہ پرہیزگار ہونے کا دعوی کررہاہے۔ اور یہی چیز بدعت ہے کہ  کسی بھی ایسے کام کو دین سمجھ کر انجام دینا جو شریعت میں نہیں ہے۔ اور اسکی سنگینی کی وجہ سے شریعت نے بدعت کا زبردست رد کیاہے۔ کیوں کہ ایک  زانی یا کسی اور مرتکبِ کبیرہ کی بہ نسبت  ایک بدعتی کو توبہ کی توفیق جلدی نہیں ہو تی کیوں کہ وہ تو اس کو نیکی سمجھ کر کرتا ہے۔ جس کی بنا پر اس کے دل میں توبہ کا خیال آنا مشکل امر ہے ، جب کہ  کبیرہ کا مرتکب اپنا کام گناہ سمجھ کر انجام دیتاہے ، وہ اسے غلط سمجھتا ہے اسی لئے وہ اسے چھپا کر انجام دیتا ہے ۔اور بعد میں اسے افسوس بھی ہوتاہے۔ اور ایسے شخص کے ذہن میں توبہ کا خیال آنا ایک فطری بات ہے۔
جس اسلامی مہینے  سے ہم اور آپ گذر رہے ہیں  یعنی شعبان کا مہینہ ایک ایسا مہینہ ہے جس کی پندرہویں تاریخ میں چند عجیب و غریب بدعات انجام دی جاتی ہیں۔اور اس  رات کو مبارک تصور کیا جاتاہے۔
تو سب سے پہلے ان بدعتیوں کے دلائل اور ان کا استدلال پیش کیا جائے گا ساتھ ہی میں ان کا رد بھی کیا جائے گا اور بعد میں اس  تاریخ میں انجام دئے جانے والے بعض افعال اور عقائد کا ذکر ہوگا۔
پندرہ شعبان کے متعلق روایتیں اور ان کاجائزہ
1: حضرت علی کے واسطے سے نبی کریم ﷺ کی طرف منسوب کی جانے والی  ایک موضوع حدیث جس میں ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا : إذا کانت لیلۃ نصف من شعبان فقوموا لیلھا وصوموا نھارھا  ۔ ۔ الخ ۔ ۔ یعنی اس رات کو قیام کرو اور دن میں روزہ رکھو کیوں کہ اس رات میں مغرب کے بعد سے ہی اللہ تبارک و تعالیٰ دنیاو ی آسمان پر نزول فرماتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ : ألا من مستغفر فأغفر لہ۔ ۔ الخ۔۔ یعنی ہے کوئی مغفرت کا طالب کہ میں اسے معاف کردوں، ہے کوئی روزی کا طلب گار کہ میں اسے روزی عطاکروں ۔۔۔  یہ سلسلہ صبح تک چلتا رہتا ہے۔
ابن ماجہ کی یہ روایت موضوع ہے کیوں کہ  اس کا ایک راوی  ابوبکر بن عبداللہ بن محمد(ابن ابی سبرۃ) کذّاب اور وضّاع ہے۔
2: ام المؤمنین عائشہ  صدیقہ ؓ کی مشہور روایت جو ترمذی اور ابن ماجہ میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : إن اللہ عزوجل ینزل کل لیلۃ النصف من شعبان  فیغفر الذنوب أکثر من شعر غنم کلب۔
         یعنی اس رات میں اللہ کا نزول ہوتا ہے اور وہ قبیلۂ کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعداد میں گناہ معاف کرتاہے۔اس کے ایک راوی حجاج بن أرطاط جمہور کے نزدیک ضعیف اورمدلس ہیں۔اور امام ترمذی نے فرمایا کہ میں نے امام بخاری کو اس حدیث کو ضعیف قرار دیتے ہوئے سنا ہے۔
3: رسول اللہ ﷺ کی  طرف منسوب ایک موضوع اور من گھڑت روایت: من صلی لیلۃ النصف من شعبان ثنتی عشرۃ رکعۃ یقرأ فی کل رکعۃ  قل ھو اللہ احد ثلاثین مرۃ لم یخرج حتیٰ یری مقعدہ من الجنۃ۔  یعنی جو شخص پندرہویں شعبان کی رات کو اس طرح 12 رکعتیں پڑھے کہ ہر رکعت میں 30 مرتبہ سورۂ اخلاص پڑھے تو وہ نماز سے فارغ ہونے سے پہلے ہی جنت  میں اپنا مقام دیکھ لے گا۔
 یہ حدیث انتہائی درجے کی موضوع ہے۔ اس کو علامہ ابن القیم ، علامہ سیوطی اور علامہ ابن الجوزی نے موضوع قرار دیا ہے۔
روایتیں تو بہت ساری ہیں، جو یا تو موضوع ہیں یا ضعیف، اس سلسلے میں کوئی ایک روایت بھی اس قابل نہیں ہے کہ کسی طرح اس کو قابل عمل  مانا جائے۔ علامہ ابن القیم الجوزی نے فرمایا کہ : لایصح منھا شیئ  یعنی اس موضوع میں کوئی بھی روایت صحیح نہیں ہے۔ خود احناف کےبعض  معتبر  علماء نے بھی اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ اس مسئلے میں کوئی بھی روایت صحیح نہیں ہے۔جن میں سر فہرست ملا علی قاری اور مولانا تقی عثمانی صاحب ہیں۔
اس رات  کے متعلق بعض گمراہ کن عقائد اور اعمال
1:  سب سے گمراہ کن عقیدہ یہ کہ اس رات میں روحیں اپنے گھروں میں آتی ہیں اور اپنے من پسند چیزوں کو استعمال بھی کرتی ہیں۔یہ سراسر گمراہی ہے اور ہندوانہ عقیدہ ہے جس کا کتاب و سنت سے کوئی  ثبوت نہیں ہے۔
 2: یہ فاسد عقیدہ بھی ہے کہ اس رات کو بندوں کے اعمال  اٹھائے جاتے ہین اور بہت سارے اہم فیصلے کئے جاتے ہیں۔ اوراس کی دلیل کے لئے سورہ دخان کی آیت: إنا أنزلنہ فی لیلۃ مبارکۃ  کا سہارا لیتے  ہیں۔ کیوں کہ اس کی ایک شاذ تفسیر ہے کہ اس رات سے مراد 15 شعبان کی رات ہے۔جب کہ جمہور مفسرین کے نزدیک اس مراد لیلۃ القدر ہے۔
اولاً تو یہ تفسیر شاذ ہے ۔ اس پر مزید یہ کہ قرآن کی دوسری آیتیں اس کی وضاحت کردیتی ہیں۔ کیوں کہ سورہ بقرہ میں ہے : شھر رمضان الذی انزل فیہ القرآن. جس سے یہ بات واضح ہے کہ قرآن کا نزول رمضان میں ہوا اس لئے لیلۃ مبارکۃ  بھی رمضان ہی کی کوئی رات ہے نہ کہ کسی اور مہینے کی۔
 3: اس رات میں چراغاں کیا جاتا ہے،پٹاخے پھوڑے جاتے ہیں جوکہ ہندؤوں  اور اہل کتاب کی مشابہت ہے جوکہ صراحتاً ممنوع ہے۔
4: عورتوں کا سج سنور کر قبرستان جانا  جب کہ عورتوں کے لئے  اس طرح زینت کا ظاہر کرنا ممنوع ہے اور اسی طرح قبر کی زیارت کی اجازت صرف مردوں کو دی گئی ہے۔عورتوں کے لئے  وہ بدستور حرام ہے۔
 5: اس رات کا سب سے اہم عمل صلاۃ الفیہ یا سورکعتی نماز جوکہ سراسر بدعت ہے ۔جس روایت سے استدلال کرتے ہیں وہ نہایت درجے کی موضوع  روایت ہے۔ یہ نماز آپ ﷺ کی وفات کے تقریباً 400 سال بعد بیت المقدس میں ایجاد ہوئی ۔ اس نماز کے بارے میں امام نووی ؒ نے فرمایا کہ : یہ ایک مذموم،منکر  اور بدعت ہے۔
اور بہت سارے اعمال ہیں جن کا تذکرہ یہاں باعث تطویل ہوگا۔ مثلاً حلقے بناکر ورد کرنا، لاالہ الااللہ کی ضربیں لگانا وغیرہ اعمال جن کا شریعت سے کوئی بھی ثبوت نہیں ہے۔
یوں تو تمام بدعات اپنی جگہ ایک سنگینی رکھتی ہیں لیکن  یہ  بدعت  تباہ کن ہے۔کیوں کہ اس بدعت نے شریعت کی ایک مبارک ترین رات لیلۃ القدر کی اہمیت کو مٹاکر رکھ دیا۔ جو اہتمام اس رات کے لئے کرنا تھا وہ اب اس بدعت کے سپرد ہوگیا۔اللہ کے رسول اسی بنیاد پر اکثر خطبوں میں یہی فرمایا کرتے کہ : ان کل بدعۃ ضلالۃ وکل ضلالۃ فی النار۔
اللہ ہمیں اور تمام مسلمانوں کو بدعت جیسی گمراہی سے بچائے۔آمین

.


۞۞۞

LIKE& SHARE it on Facebook



۞۞۞
Follow me on Facebook
آپ کی رائے جان کر ہمیں خوشی ہوگی