میرے ماضی کا ایک "خوبصورت" حادثہ
ایک معتدل سی شام کی بات ہے، حسبِ عادت مغرب کے بعد مسجد کے برآمدے میں بیٹھ کر اپنی پڑھائی کر رہا تھا۔ میرے فرشتوں کو بھی نہیں معلوم ہوا ہوگا کہ آج میرے خلاف ایک گھناؤنی سازش کی بنیاد رکھی جائے گی۔ اتفاق سے کسی ضرورت کے تحت شمال کی جانب بیٹھے ہوئے اپنے ہم سبق کاظم کی طرف نظرگئی تو وہ وہاں موجود نہ تھا، تلاشتا ہوا اندر گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ تمام ہی ہم جماعت ایک جگہ حلقہ بنائے ہوئے ہیں، قریب پہونچا تو دیکھا کہ ناظمِ محترم تشریف فرما ہیں ، سعادت مندی سمجھ کر بیٹھ گیا۔ گفتگو چوں کہ پہلے سے ہی جاری تھی اس لئے مجھے اس کے سیاق و سباق کا علم نہیں ہے۔
آپ لو گ اپنے مسائل بتائیں!!
آپ لوگ خاموش کیوں ہیں؟؟
میں اس جامعہ کا نیا ناظم ہوں اور آپ لوگ پرانے طالب ہیں، جب تک آپ لوگ ہمیں یہ نہیں بتائیں گے کہ کیا کیا خامیاں ہیں میں کیسے سدھاروں گا ان خامیوں کو؟؟
آپ لوگ بولتے کیوں نہیں؟؟
دیکھئے آپ لوگ کس بات سے خائف ہیں ؟؟ بلاجھجھک کہیں میں آپ ہی کا ایک محمدی بھائی ہوں مجھے آپ کی مدد کی ضرورت ہے۔
چوں کہ اس سے ایک ہفتہ پہلے انھوں نے گھنٹیوں میں ردوبدل کروایا تھا اور ہم تمام ساتھی اس سے خائف تھے۔ہم نے یہی کہا کہ ہماری شکایت کھانے پینے یا کسی دیگر ضمنی مسئلے کو لے کر نہیں ہے ۔ بلکہ گھنٹیوں کی تبدیلی سے ہے۔
بحث کی طوالت میں نہیں جانا چاہتا ہوں بعد میں محترم ناظم نے ہمیں بہت ہمدردی سے مشورہ دیا کہ آپ لوگ ایک شکایت نامہ ناظم تعلیمات کے نام لکھیں تاکہ اس پر کارروائی کی جاسکے،اتنا بھولا انداز تھا ،فرمارہے تھے کہ دیکھئے ایسے انداز سے لکھئے گا کہ اساتذہ کی دل آزاری نہ ہو اورآپ کا کام بھی ہوجائے۔
ہفتہ عشرہ کے بعد میں نے جماعت والوں سے پوچھ کر شکایت نامے کا ایک مسودہ تیار کیا، سب اس سے متفق ہوئے تو اب اسے لکھنے کی باری آئی ۔ چوں کہ جماعت میں صرف دو ہی طالب تھے جن کو کتابت کا ذوق تھا، اور انہی بد نصیبوں میں میرا بھی نام تھا، میں نے اپنے دوسرے ساتھی سے اس کی پیش کش کی وہ کسی صورت راضی نہ ہوااور ساتھیوں کے اصرار پر میں نے اس شکایت نامہ کو تحریر کردیا۔
ناظم صاحب نے یہیں سے وعدہ خلافیوں کا آغاز شروع کیا۔ کہا تھا کہ یہ شکایت نامہ اساتذہ کو نہیں دکھایاجائے گا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ پھر لازماً بعض اساتذہ ہمیں نشانہ بنانے لگے۔ فضیلت ثانی میں ایک محترم استاذ نے تو طلباء کو مارنا شروع کردیا۔ مجھ پر بھی ہاتھ اٹھایا تو میں نے یہ گستاخی کردی کہ ان کا ہاتھ روک کر گویا ہوا کہ محترم میری غلطی مجھے بتادیں میں اپنا سر آپ کے پیروں کے نیچے رکھ دوں گا لیکن بغیر کسی غلطی کے مجھے ہر گز نہ مارئے گا۔... بس کیا تھا لعنتوں کی بارش شروع ہوگئی۔ مجھے کافی افسوس ہے میرے استاذ پر کہ انھوں احادیث کے ساتھ خیانت کی۔ صحیح مسلم میں کتاب القسامۃ والمحاربین کی اکثر احادیث کے استدلال کا رخ صرف میری طرف ہواکرتاتھا۔
خیر یہ پندرہ دن ایک پہاڑ کی طرح گذرے ، وہ آتے جاتے ہم پر لعنتیں برساتے۔ پندرہ دن کے بعد ناظمِ محترم کا ارشاد ہوا کہ آپ لوگوں کی درخواست ناقابل قبول ہے کیوں کہ اس کے پیچھے کسی سازش کا ہاتھ ہے۔ آپ جائیے اور اپنے اساتذہ سے معافی مانگ لیجئے۔ چوں کہ تحریر میری تھی اور جامعہ کا تقریباً ہر استاذ میری تحریر سے واقف تھا۔ اسی لئے میں ہی اس سازش کا ایک اہم حصہ قرار دیاگیا.........
میں نے ناظمِ محترم سے کہا بھی کہ محترم اگر یہ کسی سازش کا نتیجہ ہے تو وہ تو خود آپ ہی کی سازش ہوگی۔ کیوں کہ آپ ہی کے حکم اور اصرار پر ہم نے یہ شکایت نامہ لکھاتھا!!! جب کوئی جواب نہ بن پڑا تو ارشاد فرمایا کہ دیکھو بیٹا یہ میرا مشورہ ہے اسے مان لو۔ میں یہ فیصلہ فی الحال نہیں کرسکتا۔ پھر میں نے یہی کہا کہ جب آپ کا مشورہ ہے تو مان لیتا ہوں۔ اور اس رات کی میٹنگ میں فلمی انداز میں بس تین یا چار احباب کووہ بھی فرداً فرداً ایک کمرے میں بلاکر تفتیش کی گئی۔ میں جان بوجھ پہلے نہ جاکر تیسرے نمبر پر گیا۔ تعجب تو تب ہوا جب میرے بعد کسی اور کو نہیں بلایا گیا۔ مطلب میں ہی تھا ان کا نشانہ۔
میں نے ناظمِ محترم سے کہا بھی کہ محترم اگر یہ کسی سازش کا نتیجہ ہے تو وہ تو خود آپ ہی کی سازش ہوگی۔ کیوں کہ آپ ہی کے حکم اور اصرار پر ہم نے یہ شکایت نامہ لکھاتھا!!! جب کوئی جواب نہ بن پڑا تو ارشاد فرمایا کہ دیکھو بیٹا یہ میرا مشورہ ہے اسے مان لو۔ میں یہ فیصلہ فی الحال نہیں کرسکتا۔ پھر میں نے یہی کہا کہ جب آپ کا مشورہ ہے تو مان لیتا ہوں۔ اور اس رات کی میٹنگ میں فلمی انداز میں بس تین یا چار احباب کووہ بھی فرداً فرداً ایک کمرے میں بلاکر تفتیش کی گئی۔ میں جان بوجھ پہلے نہ جاکر تیسرے نمبر پر گیا۔ تعجب تو تب ہوا جب میرے بعد کسی اور کو نہیں بلایا گیا۔ مطلب میں ہی تھا ان کا نشانہ۔
خیر! اللہ اللہ کرکے 16 اگست کی صبح کو جماعت میں وہی استاذِ حدیث مسلم شریف پڑھا رہے تھے۔ اور جان بوجھ کر کئی کئی الفاظ کا ترجمہ و تشریح کئے بغیر ہی آگے بڑھ رہے تھے کہ عادتا میں کچھ بولوں۔ اور جیسے ہی میں نے کہا کہ شیخ! فلاں لفظ کی تشریح میں سمجھ نہیں سکا۔ واللہ اس کے بعد استاذ محترم نے جو کچھ میرے اور میرے والدِ محترم کے خلاف موشگافیاں فرمائی انہیں میں آپ کے سامنے بولنا نہیں چاہتا۔ تمام طلبا کے سامنے میری اور میرے والدِ محترم کی عزت کی دھجیاں اڑاکر رکھ دیں۔
یہی میرا آخری دن تھا۔
میں نے گھر جاکر فوراً اپنافیصلہ سنایا کہ ان اساتذہ سے میں یہی سیکھوں گا؟؟ کیا یہی غلیظ سیاست دین کے نام پر سیکھوں گا؟ مجھے ملّا نہیں بننا ہے۔ اگر آپ مجھے جامعہ سے نکلنے کی اجازت نہ دیں تو میں آپ لوگوں کو بھی چھوڑ کر جہاں میرا دل کہے چلا جاؤں گا۔
(اور یہی وجہ ہے کہ مدینہ یونیورسٹی سے میری منظوری آنے کے بعد بھی میں نہیں گیا۔ کیوں کہ اس میں بھی میرے بعض مخلصین نے سیاست کی تھی، اللہ ہی بچائے ان گندی سیاستوں سے۔ آمین۔)
والد محترم نے مکمل حال سنا پہلے تو مجھے ڈانٹا کہ مجھ سے چھپاکر یہ شکایت نامہ کیوں لکھا؟ مجھے معلوم ہے شکایت کا یہی حشر ہوتا ہے۔ پھر انھوں نے غور کرکے یہ فیصلہ کر دیا کہ ٹھیک ہے فضیلت ثانی کا سال سہی اگر تمہارے ساتھ یہی ہوتا ہے روزانہ تو تم ہرگز نہیں پڑھ سکتے۔
مجھے اپنے والد محترم کے فیصلے پر ناز ہے کہ آج میں فکری طور پر آزادہوں۔ لیکن ایک بات ہے میں ان اساتذہ کو قیامت تک نہیں بھول سکتا ہوں جنھوں نے میرے اور میرے والدین کے مکمل ہوتے ہوئے خواب کو چکنا چور کردیا۔
ظفؔر شیر شاہ آبادی
۞۞۞
LIKE↓& SHARE↓ it on Facebook
۞۞۞
Follow↓ me on Facebook
آپ کی رائے جان کر ہمیں خوشی ہوگی